الٰہ آباد ہائی کورٹ نے کہا اقلیتی مدارس ریاستی کنٹرول سے آزاد نہیں
پریاگ راج، 17 اکتوبر:روایت نیوز ڈیسک
الٰہ آباد ہائی کورٹ نے کہا ہے کہ اقلیتی ادارے، بشمول مدارس، اپنی خودمختاری کے حق کے ساتھ ساتھ ریاست کے تعلیمی ضابطوں کی پابندی کے بھی پابند ہیں۔ عدالت نے کہا کہ آئینِ ہند کے آرٹیکل 30(1) کے تحت اقلیتوں کو اپنی پسند کے تعلیمی ادارے قائم کرنے اور چلانے کا حق حاصل ہے، مگر یہ حق تعلیمی معیار کے تحفظ اور تدریسی اہلیت کے اصولوں سے بالاتر نہیں ہو سکتا۔

یہ فیصلہ مدرسہ عربیہ شمشالعلوم، سکرگنج (احاطہ نواب، گورکھپور) کے ایک اشتہار سے متعلق تھا، جو پانچ اسسٹنٹ اساتذہ اور ایک کلرک کی بھرتی کے لیے 29 اپریل 2025 کو شائع ہوا تھا۔ عدالت نے یہ اشتہار منسوخ کرتے ہوئے کہا کہ چونکہ ریاستی حکومت نے 20 مئی 2025 کے حکم نامے کے ذریعے مدارس میں نئی تقرریوں پر عارضی پابندی عائد کر رکھی تھی، اس لیے حکومت کے نئے اہلیتی اصول طے ہونے تک کوئی تقرری مناسب نہیں۔
عدالت نے کہا کہ یہ اصول سپریم کورٹ کے 2024 کے فیصلے (انجمن قدری بنام یونین آف انڈیا) کے بعد بنائے گئے، جس میں کامل اور فاضل ڈگریوں کو غیر آئینی قرار دیا گیا تھا۔ حکومت نے اسی بنیاد پر نئے معیارِ اہلیت اور تدریسی ضابطے وضع کرنے کا فیصلہ کیا تھا تاکہ مدارس کا نظام تعلیم عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جا سکے۔
درخواست گزار، یعنی مدرسے کی انتظامی کمیٹی، نے موقف اختیار کیا کہ ناظمِ اعلیٰ سجاد حسین کو اشتہار جاری کرنے کا قانونی اختیار نہیں تھا، کیونکہ 2019 میں اسے سوسائٹی کی رکنیت سے خارج کر دیا گیا تھا۔ عدالت نے اس موقف کو تسلیم کیا اور کہا کہ ’’کسی بھی تقرری یا اشتہار کو قانون اور ریاستی پالیسی کے مطابق ہونا ضروری ہے، ورنہ وہ عمل کالعدم تصور ہوگا۔‘‘
جسٹس منجو رانی چوہان نے فیصلے میں کہا کہ ریاست کے ضابطوں کا مقصد مدارس کی آزادی محدود کرنا نہیں بلکہ تعلیم کے معیار کو بہتر بنانا ہے۔ ’’آئین اقلیتوں کو ادارے چلانے کا حق دیتا ہے، مگر یہ حق انہی حدود میں ہے جو تعلیم کی بہتری اور ادارہ جاتی شفافیت کے لیے ضروری ہوں۔‘‘
عدالت نے اپنے فیصلے میں سپریم کورٹ کے متعدد سابق فیصلوں — P.U. Joshi (2003)، Usha Kheterpal Waie (2011) اور Gaurav Ashwin Jain (2007) — کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اساتذہ کی اہلیت، تقرری کے اصول، اور معیارِ تعلیم طے کرنا حکومت کا پالیسی اختیار ہے اور عدالتیں یا تعلیمی ادارے اس میں مداخلت نہیں کر سکتے۔
عدالت نے اشتہار منسوخ کرتے ہوئے واضح کیا کہ اگر اس کے تحت کوئی تقرریاں ہو بھی چکی ہوں تو وہ ’’ابتدا ہی سے کالعدم‘‘ ہوں گی اور اس سے کسی کو قانونی حق حاصل نہیں ہوگا۔
فیصلے میں یہ نکتہ بھی نمایاں کیا گیا کہ اقلیتی اداروں کی خودمختاری آئینی تحفظ کے ساتھ قائم رہے گی، تاہم انہیں ریاستی معیار اور پالیسی کے دائرے میں رہ کر تعلیم کے نظام کو مضبوط بنانا ہوگا۔
