الہ آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ: شراوستی کے 30 مدارس دوبارہ کھلیں گے
نئی دہلی/ لکھنو، 21 اگست 2025:
الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ نے جمعرات کو اتر پردیش کے ضلع شراوستی میں بند کیے گئے 30 مدارس کو فوراً دوبارہ کھولنے کا حکم دیا۔ عدالت نے کہا کہ ریاستی حکام اگر چاہیں تو نئے نوٹس جاری کر سکتے ہیں، لیکن اس کے لیے مناسب قانونی عمل اختیار کرنا اور مدارس کو وضاحت کا منصفانہ موقع دینا لازمی ہوگا۔

یہ فیصلہ جسٹس پنکج بھاٹیہ کی بنچ نے مدرسہ معین الاسلام اور دیگر 26 مدارس کی عرضیوں پر سنایا۔ عرضی گزاروں نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ حکومت نے ادارے بند کرنے سے قبل نہ تو باضابطہ نوٹس دیا اور نہ ہی صفائی کا موقع فراہم کیا۔ ان کے مطابق تمام نوٹس ایک ہی نمبر کے تحت جاری ہوئے، جو انتظامیہ کی لاپرواہی کو ظاہر کرتا ہے۔
ریاستی حکومت کے وکلاء نے کہا کہ کارروائی ’’اتر پردیش غیر سرکاری عربی و فارسی مدرسہ تسلیماتی ضوابط 2016‘‘ کے تحت کی گئی تھی اور یہ غیر قانونی نہیں تھی۔ تاہم عدالت نے ان دلائل کو تسلیم نہیں کیا اور کہا کہ سماعت کے بغیر اس طرح کی کارروائی برقرار نہیں رہ سکتی۔
اس سے قبل 7 جون 2025 کو بھی عدالت نے انہدامی کارروائی پر عبوری روک لگائی تھی اور نشاندہی کی تھی کہ تمام نوٹس ایک ہی نمبر سے جاری ہوئے تھے۔ شراوستی میں بلڈوزر کارروائی اور یکطرفہ اقدامات کے بعد مقامی سطح پر خوف اور تشویش پیدا ہوگئی تھی۔
یہ تنازع اس وقت ابھرا جب اپریل 2025 میں یوپی حکومت نے نیپال سرحد سے متصل اضلاع—بہرائچ، شراوستی، سدھارتھ نگر، مہراج گنج اور بلرام پور—میں غیر قانونی تعمیرات کے خلاف مہم چلائی۔ اس دوران سیکڑوں غیر مجاز ڈھانچے منہدم کیے گئے جن میں بعض غیر تسلیم شدہ مذہبی ادارے بھی شامل تھے۔
جمعیۃ علماء ہند کا ردعمل
فیصلے پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا محمود اسعد مدنی نے کہا کہ عدالت نے مدارس کے حق میں فیصلہ دے کر انصاف اور آئین کی پاسداری کی ہے۔ ان کے مطابق یہ ادارے غریب بچوں کو مفت تعلیم فراہم کرتے ہیں اور انہیں ذمہ دار شہری بنانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
مولانا مدنی نے حکومت کی کارروائی کو ’’غیر مدبرانہ اور بدنیتی پر مبنی‘‘ قرار دیا اور کہا کہ آئین نے مذہبی تعلیم کا حق دیا ہے، لہٰذا کوئی بھی اقدام جو اس حق کو سلب کرے، آئین کے منافی ہوگا۔
