کتاب: اہلِ ذوق کی زندگی کا ہم نشین
حمیرہ اشرف
عربی زبان کے نامور شاعر متنبی نے کہا تھا: "خیر جلیس فی الزمان کتاب” کہ زمانے میں بہترین ہم نشین کتاب ہے۔ کتاب کی ہم نشینی انسان کو جہاں عظیم شخصیات کے افکار سے روشناس کراتی ہے، وہیں ذہنی و فکری رفعت کا سامان بھی فراہم کرتی ہے۔

کتابوں سے عقیدت، انہیں جمع کرنے کا شوق اور ذاتی کتب خانوں کو وسعت دینے کی جستجو اہلِ ذوق کا ہمیشہ سے خاصہ رہی ہے۔ چھٹی صدی کے حنبلی عالم امام ابن الخشاب (م 567ھ) نے ایک کتاب پانچ سو درہم میں خریدی۔ قیمت کی ادائیگی ممکن نہ ہوئی تو مکان بیچنے کا ارادہ کیا اور بالآخر اپنے شوق کی تکمیل کی۔
اسی ذوق کی بنا پر عباسی عہد میں کتب خانوں کی تعمیر و حفاظت کو بڑی اہمیت دی گئی۔ شیراز، قرطبہ اور قاہرہ میں ایسے عوامی کتب خانے قائم کیے گئے جن میں مطالعے، کتابت اور ذخیرۂ کتب کے لیے الگ الگ کمرے تھے۔ خلیفہ مامون رشید نے "بیت الحکمت” قائم کیا جو تیرہویں صدی تک علمی فیض کا مرکز رہا۔ اس عظیم کتب خانے میں عربی، فارسی، سریانی، قبطی اور سنسکرت کی دس لاکھ کتابیں موجود تھیں۔
کتب خانوں کی اہمیت اس حد تک تھی کہ کتابوں کا وجود رشتہ ازدواج میں منسلک ہونے کا سبب بن گیا تھا۔ امام اسحاق بن راہویہ (م 238ھ) نے صرف اس غرض سے سلیمان بن عبداللہ زغندانی کی بیٹی سے نکاح کیا کہ انہیں امام شافعی کی تمام تصانیف پر مشتمل کتب خانہ میسر آ جائے۔
اہلِ علم ہی نہیں، عام مسلمانوں کے لیے بھی کتب خانہ باعثِ فخر سمجھا جاتا تھا۔ ڈاکٹر عبدالحلیم چشتی لکھتے ہیں کہ "مسلمانوں نے کتب و کتب خانہ کو نہ صرف ذہن و نظر کی طہارت اور فکر کی تزکیہ کا ذریعہ بنایا بلکہ مکین و مکان کی آرائش کے لیے بھی استعمال کیا۔” اسی ذوق نے عبدالعزیز آصف خان (م 961ھ/1553ء) کو اس بات پر آمادہ کیا کہ مکۂ مکرمہ میں ایک نادر نسخہ مشکاۃ شریف وزن کے برابر سونا دے کر خریدیں۔
کتابیں نہ صرف علمی تشنگی بجھاتی ہیں بلکہ زبان و ادب کی لذت اور اسلوب کی رعنائی سے بھی ہمکنار کرتی ہیں۔
اکابر سلف کا شوقِ مطالعہ اور نیت کی پاکیزگی
ذوقِ مطالعہ بے بہا نعمت ہے جو انسان کو اپنے ہم عصروں میں ممتاز بناتی ہے۔ ائمہ اور اکابر نے اس شوق میں ایسی محنتیں کیں جن کی مثال مشکل ہے۔
امام بخاری نے چاندنی راتوں میں مطالعہ کیا۔ امام احمد بن یحییٰ ثعلب (م 291ھ) کے بارے میں آتا ہے کہ مطالعہ ان کی زندگی کا حصہ تھا، حتیٰ کہ کھانے کے وقت بھی کتاب ان کے ہاتھ میں رہتی۔ حافظ منذری (م 656ھ) کے حافظ منذری ( ولادت 581ھ وفات 656 ھ) کے بارے میں ان کے شاگرد ابراہیم بن عیسی کہتے ہیں کہ میں قاہرہ میں شیخ کے پاس میں 12 سال تک رہا ہمارا گھر ان کے گھر کے اوپر والی منزل میں تھا میں نے رات کو جس کسی حصے میں بھی اٹھ کر دیکھا تو چراغ کی روشنی میں ان کو مطالعے میں مشغول پایا ۔ (بستان العارفین ، ص: 119 )
حضرت علامہ انور شاہ کشمیری (م 1352ھ) کے معروف شاگرد حضرت مولانا محمد یوسف بنوری "نفحۃ العنبر” میں لکھتے ہیں : مطالعے کے بارے میں ان کا اصول یہ تھا کہ جب کوئی کتاب ان کے ہاتھ لگ جاتی ، چاہے وہ کتاب مخطوطہ کی شکل میں ہو یا یا مطبوعہ ، سقیم ہو یا سلیم ، کسی بھی علمی موضوع سے متعلق ہو ، آپ وہ اٹھاتے اور اول تا آخر پوری کی پوری پڑھتے ۔
یہی حال خود حضرت علامہ یوسف بنوری کا تھا جو فرماتے ہیں: "کبھی ایک بات کی تحقیق کے لیے پانچ سو، ہزار، بلکہ دو دو ہزار صفحات پڑھ ڈالے۔”
یہ مطالعہ وقت گزاری کے لیے نہیں تھا بلکہ نیت میں اخلاص شامل تھا۔ مطالعہ کا مقصد رضائے الٰہی، دین کا احیاء، ذکرِ الٰہی اور نفس و جاہلوں سے جہل کا ازالہ ہونا چاہیے تاکہ وہ عنداللہ مقبول اور باعثِ اجر قرار پائے، کیونکہ حدیث میں آیا ہے کہ "اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔”
اسی لیے تعلیم و تعلم کے آداب میں یہ بات شامل ہے کہ سبق پڑھنے سے پہلے مطالعہ کیا جائے۔ حضرت اشرف علی تھانوی طلبہ کو نصیحت کرتے تھے کہ سبق کا مطالعہ اور بار بار تکرار لازمی ہے۔
امام بخاری (متوفی 256 ھ) سے حافظہ کی دوا کے بارے میں دریافت کیا گیا تو فرمانے لگے
لا اعلم شيئا انفع للحفظ منهمة الرجل ومداومة النظر (سير اعلام النبلاء للذهبی406/12)
کہ حافظے کے لیے آدمی کے انہماک ، دائمی نظر و مطالعہ سے بہتر کوئی چیز نہیں ہے ۔
اہلِ علم کی صحبت اور اسلاف کی سوانح سے کتاب بینی کی ترغیب ملتی ہے۔ ابن مفلح نے لکھا ہے کہ طالب علم کو چاہیے کہ اسلاف کی کتابوں سے واقف ہو تاکہ ان کی ہمت و محنت دیکھ کر اپنے اندر حوصلہ پیدا کرے۔
طالب علمی کا زمانہ بلند ہمتی ، اولوالعزمی اور جوش و جذبے کا زمانہ ہے ، عظیم المرتبت شخصیات ، فاتحین اور مفکرین کی حیات و سوانح سے متعلقہ کتابیں آتش شوق کو بڑھاتا اور فروزاں تر کرتا ہے ۔ عقلی لذت کی انتہاء علم ہے ۔ محنت کی برق گرتی ہے تو نخل علم ہرا ہوتا ہے ۔
باتوفیق طالب علم کی ایک علامت یہ ہے کہ اس کو بلند ہمتی عطا کی گئی ہو اور یہ ہمت بچپن ہی سے فطری اور جبلی ہوتی ہے ۔ جب وہ علم کے ذریعہ بفضلہ تعالی حق تعالی کی معرفت اور اس کے عبادت تک پہنچے گا تو اس کو ایسی فتوحات حاصل ہوں گی جو اس کے علاوہ کو حاصل نہیں ہوں گی ۔
حضرت مولانا انور بدخشانی( استاذ حدیث جامعہ بنوری ٹاون ) لکھتے ہیں کہ-
کتابوں کے انتخاب کے رہنما اصول کے سلسلے میں یہ بات ضروری ہے کہ یہ چیزیں منقولی تو ہیں لیکن منصوص نہیں ہیں بلکہ اجتہادی ہیں ۔ اپنے زمانے کے اعتبار سے متقدمین کے اصولوں کی روشنی میں اصول مقرر کیے جا سکتے ہیں ، کیونکہ ہر لائق سابق پر موقوف ہوتا ہے ۔ قدیم علمی، تحقیقی اور فنی کتب نیز خالص علمی تحقیقی مسائل سے ضرور استفادہ کرنا چاہیے ۔بعض مقالہ نگار کسی موضوع پر اپنی زندگی کے مطالعہ کا نچوڑ اپنے ایک مقالے میں پیش کر دیتے ہیں ، ایسے مقالہ جات قابل قدر ہیں ۔ ( یاد گار زمانہ شخصیات کا احوال مطالعہ ، ص : )
طالب علمی کا زمانہ شوق و جذبے کا زمانہ ہے۔ اس دوران اکابر کی حیات پڑھنا علم کی پیاس بڑھاتا ہے۔ لیکن نتیجہ خیز مطالعہ کے لیے مقصدیت ضروری ہے۔ ورنہ بے سمتی میں پڑھنا انسان کو وادیٔ خیال میں بھٹکا سکتا ہے۔
آج سطحی مطالعہ، موبائل کی یلغار اور کتاب سے بے رغبتی کے سبب علم سینہ کم اور علم سفینہ زیادہ ہو گیا ہے۔
اسی لیے کہا گیا ہے کہ مطالعہ انسان کے لیے نصف علم ہے اور بقیہ کی تکمیل اچھی صحبت کے بغیر ممکن نہیں۔
