بہار میں مدرسہ نظام: تاریخ، دباؤ، اور اختیار کی منتقلی
غالب شمس
گزشتہ قسط میں ہم نے بتایا تھا کہ بہار میں مدرسہ نظام کا زوال احتجاجی نہیں، تدریجی ہے: مالی کمزوری، انتظامی دباؤ، اور اعتماد کی تحلیل۔ وہاں ہم نے بتایا تھا کہ نظام مسلسل اندر سے کھوکھلا ہو رہا ہے۔ اس قسط میں ہم اسی پس منظر کو آگے بڑھاتے ہوئے دیکھیں گے کہ یہ نظام تاریخی طور پر کیسے قائم ہوا، اس کی خود مختاری کن اصولوں پر کھڑی تھی، اور موجودہ ترمیمات کے ساتھ اختیار کا مرکز کس طرح ریاستی ڈھانچے کی طرف منتقل ہو رہا ہے۔

مدرسہ کی تاریخ اور خود مختاری
بہار میں مدرسہ نظام کی بنیاد بیسویں صدی کے اوائل میں رکھی گئی۔ 1912 میں مدرسہ اسلامیہ شمس الہدیٰ قائم ہوا اور 1920 میں وقف نامہ کی شرائط کے ساتھ حکومت کی تحویل میں آیا۔ اس کے امتحانات اور اسناد کے لیے ایک علیحدہ انتظامی ڈھانچے کی ضرورت محسوس ہوئی اور یوں 1922 میں بہار و اڑیسہ مدرسہ امتحان بورڈ قائم ہوا۔ اس مرحلے میں بورڈ کا کردار محدود تھا: امتحانات، نتیجے، سرٹیفکیٹ۔ مدارس کی داخلی انتظامیہ، اساتذہ کی تقرری اور اوقافی فیصلے مقامی مجلسِ منتظمہ کے اختیار میں رہے۔
اس کے بعد 1981 میں ایک بڑا موڑ آیا۔ مسلسل ملی اور عوامی مطالبات کے نتیجے میں مدرسہ امتحان بورڈ کو تحلیل کرکے بہار اسٹیٹ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ قائم کیا گیا۔ اس ایکٹ نے مدارس کی اسناد کو ملک گیر مساوات دی اور بورڈ کو ایک خود مختار ادارہ تسلیم کیا۔ یہی وہ اصولی بنیاد تھی جس نے مدرسہ نظم کو آئینی حقِ اقلیت (آرٹیکل 29-30) کے تحت مضبوط کیا۔ فیصلہ سازی کا مرکز مدرسہ روایت کے اندر رہا، ریاست کے ہاتھ میں نہیں۔ یہ انتظام دراصل اعتماد کا ڈھانچہ تھا۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ بہار میں ایک زمانے میں مدارس کے راشٹریہ کرن (Nationalisation) کا فیصلہ آ چکا تھا۔ مگر اس وقت قاضی مجاہد الاسلام قاسمیؒ نے کھل کر مخالفت کی تھی۔ انہوں نے واضح انداز میں بتایا کہ: مدارس اوقاف کی جائیداد اور سماجی اعتماد سے چلتے ہیں؛ اگر سرکار کے زیرِ انتظام آگئے تو اوقاف کی ملکیت اور نظم بنیادی سطح پر بدل جائے گا، جو شریعت کے اعتبار سے قبول نہیں۔
ان کی دلیل اور مزاحمت نے اس وقت فیصلہ رکوا دیا۔ مگر آج جو صورتحال ہے، وہ اعلان کے بغیر اسی فیصلے کی ایک تدریجی انتظامی شکل ہے۔
میڈیا بیانیہ اور انتظامی دباؤ
گزشتہ سات آٹھ برسوں میں نیپال سرحدی اضلاع—مظفرپور، سیتامڑھی، ارریہ، کٹیہار—کے چند غیر منظور شدہ مدارس پر بعض قومی چینلز کے اسٹنگ آپریشن نشر ہوئے۔ حوالہ رقوم، غیر دستاویزی طلبہ اور کچھ متنازع مواد دکھایا گیا۔ واقعات محدود تھے، مگر انہیں پورے نظام کی شناخت کے طور پر پیش کیا گیا۔
یوں مدرسہ اور مشتبہ نظریاتی مقام کا تاثر مضبوط ہوا۔ اسی دوران سیتامڑھی کے 88 مدارس کی منظوری کا کیس ہائی کورٹ میں پہنچا اور 1,637 مدارس کی جسمانی جانچ کا حکم ہوا۔ کئی رپورٹس تاخیر کا شکار رہیں۔
یہ سب انتظامی عمل سے زیادہ بیانیہ سازی میں اثرانداز ہوا۔
یہی وہ فضا تھی جس میں 2022 کے دو اہم نوٹیفکیشن آئے۔
(الف) مجلسِ منتظمہ کی تشکیل ۔ نوٹیفکیشن نمبر 396 مؤرخہ 22/04/2022
22 اپریل 2022 کو دو نوٹیفکیشن جاری ہوئے جنہوں نے پہلی بار فیصلہ سازی کے مرکز کو باقاعدہ طور پر بدلنا شروع کیا۔ نوٹیفکیشن نمبر 396 نے مجلسِ منتظمہ کی تشکیل کو ضلع ایجوکیشن افسر کی نگرانی، اوپن میٹنگ اور مخصوص نامزدگیوں کے سانچے میں سمیٹا۔ ہیڈمولوی/سینئر استاد، دو واقف، دو گارجین، دو عربی/فارسی ماہرین اور بورڈ نامزد رکن (ڈی ای او) پر مشتمل کمیٹی اسی فورم میں صدر و سکریٹری منتخب کرے گی، اور فہرست 60 دن میں منظوری کے لیے بورڈ کو جائے گی—عدم جواب کی صورت میں اسے منظور سمجھا جائے گا۔ اس ترتیب نے مقامی سماجی اعتماد کو برقرار رکھا، مگر آخری توثیق اور تشکیل کا عمل اب ضلعی انتظامیہ کی باقاعدہ نگرانی میں آ گیا۔
(ب) اساتذہ/ملازمین کی تقرری : نوٹیفکیشن نمبر 395 مؤرخہ 22/04/2022
اس نوٹیفکیشن نے تدریسی و غیر تدریسی اسامیوں کی درجے بہ درجہ ساخت (وسطانیہ، فوقانیہ، مولوی) اور اہلیت (عالم/فاضل، ڈی ایل ایڈ/بی ایڈ، وغیرہ) طے کیں، اور تقرری کے لیے محکمہ جاتی پورٹل، کاؤنسلنگ، میرٹ ویریفکیشن اور ڈی ای او کی نگرانی لازم کی۔ بعض اسامیوں پر پروموشن کی واضح راہیں بھی طے کی گئیں؛ کانسلنگ/ریکارڈ پورٹل پر اپ لوڈ ہوں گے اور بورڈ آن لائن توثیق کرے گا، عدم منظوری کی صورت میں وجہ لکھنا ہوگی اور اپیل کا حق بھی موجود ہے۔
اصل تبدیلی: پہلے جہاں امتحان، انٹرویو اور بورڈ منظوری ایک مشترکہ اندرونی عمل تھا، اب بنیاد پورٹل-مرکزیت، ضلعی نگرانی اور نمبروں/اہلیت پر منتقل ہوئی—یعنی پروسیس گورنَنس ریاستی نظم کے تحت آ گئی۔
مولانا ابوالکلام قاسمی شمسی کے مطابق "ملحقہ مدارس اقلیتی ادارے ہیں؛ مجلسِ منتظمہ اور تقرری کے ضوابط سرکاری نوٹیفکیشن سے طے کرنا آرٹیکل 29–30 کے دائرے سے ٹکراتا ہے۔ 1981 ایکٹ کے تحت اصول سازی کا اختیار بورڈ کے پاس تھا؛ اسے محکمہ کے ہاتھ میں دینا خود مختاری کے خلاف ہے۔ متعدد ادارے وقف ہیں مگر نوٹیفکیشن میں وقفی حیثیت کی رعایت واضح نہیں۔ ضلع رہائشی شرط اور صرف نمبروں پر زور اچھے استاد کے انتخاب کو محدود کرتا ہے، تحریری/تقریری انٹرویو کی گنجائش سمٹتی ہے۔ بورڈ کے تحت طے شدہ بعض مستند نظامیہ اداروں کے فارغین کی تقرری کی گنجائش بھی سکڑتی دکھائی دیتی ہے۔ نصاب/درجات کی وسعت کے تناسب سے اساتذہ کی تعداد کا اضافہ واضح نہیں، اور اردو میڈیم کے تناظر میں عصری مضامین کے اساتذہ کے لیے اردودانی کی شرط معیاری طور پر متعین نہیں۔”
ترمیمی بل 2024:
اسی انتظامی پس منظر میں بہار اسٹیٹ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ (ترمیمی) بل 2024 اسمبلی سے منظور ہوا۔
حکومت کا مؤقف یہ تھا کہ اس سے معیارِ تعلیم بہتر ہوگا، سائنسی و پیشہ ورانہ مضامین شامل کرنے کی گنجائش بڑھے گی، اور بورڈ کی ساخت زیادہ شفاف اور مضبوط ہوگی۔ مگر قانون کے متن میں جو بنیادی تبدیلیاں کی گئیں، وہ نظام کے مرکزِ اختیار کو بدل دیتی ہیں۔ حکومت کو یہ حق حاصل ہو جاتا ہے کہ وہ بورڈ کو کسی بھی وقت تحلیل کر دے اور انتظام ایک عبوری کمیٹی یا ایڈمنسٹریٹر کے سپرد کر دے۔ کاغذ پر اس عبوری مدت کے لیے تین ماہ کی حد ہے، لیکن ایسی مثالیں پہلے بھی موجود ہیں کہ عبوری انتظام مستقل شکل اختیار کر لیتا ہے۔ اسی کے ساتھ چیئرمین اور اراکین کی اہلیت کی تعریف اس طرح مرتب کی گئی ہے کہ بیوروکریٹک پروفائل زیادہ فٹ ہو، مدرسہ روایت سے جڑی علمی قیادت کم۔ تقرری، بحالی اور داخلی نظم سے متعلق اختیارات کا بڑا حصہ محکمہ جاتی سرکولر اور نوٹیفکیشن کے ذریعے متعین ہونے لگتا ہے۔
قانونی و انتظامی مفہوم:
1981 کا ماڈل ریگولیشن بمقابلہ مینجمنٹ میں توازن رکھتا تھا، ریاست نگرانی کرے، مگر چلائے نہیں۔ 2022 کے نوٹیفکیشن نے پروسیس ریاستی نظم کی طرف منتقل کیے؛ 2024 کی ترمیم اس منتقلی کو قانونی چھتری دیتی ہے۔ یوں “نصاب ابھی نہیں بدلا” درست ہو سکتا ہے، مگر نصاب/پالیسی پر فیصلہ سازی کے مراکز بدل گئے، یوں ریاستی کنٹرول کی سمت، میڈیا بیانیے کا دباؤ، اور داخلی اصلاح کے نامکمل عمل ۔ تینوں مل کر وہ صورتِ حال پیدا کرتے ہیں جس میں نظام کا وجود برقرار ہے مگر اس کا مرکز اور سمت تبدیل ہو رہی ہے۔
