غالب شمس
جواہر لال نہرو طویل عرصے تک ہندوستان کی سیاست، تاریخ اور اجتماعی حافظے میں زندہ رہیں گے۔ ان کی زندگی اور ان کے فیصلوں پر اختلاف ضرور رہا ہے، تنقید بھی کم نہیں ہوئی، مگر حقیقت یہ ہے کہ انہیں نظر انداز کرنا کبھی ممکن نہ ہوا۔ ان کی وفات کے بعد ان کی اہمیت گھٹانے کی کوششیں ہوئیں، مگر وقت نے ثابت کیا کہ وہ سماجی تبدیلی کو راستہ دینے، آئینی ڈھانچے کو جڑیں فراہم کرنے اور ریاستی منصوبہ بندی کو ایک مستقل سمت بخشنے والے قائد تھے۔
نہرو کی اپنی تحریریں ان کی شخصیت کا وہ پہلو سامنے لاتی ہیں جو محض سیاسی سوانح سے کہیں آگے ہے: بچپن کی تنہائی، کشمیر سے رشتہ، کیمبرج کی علمی وسعت، اور ایک ایسے ہندوستان سے جذباتی وابستگی جسے وہ مسلسل سمجھنے، پرکھنے اور نئی شکل دینے کی کوشش کرتے رہے۔ یہی داخلی کشمکش، یہی خود احتسابی اور یہی ذہنی ارتقا ان کے پالیسی فیصلوں کی اصل بنیاد تھی۔
حالیہ دنوں میں نیویارک کے نو منتخب میئر زہران ممدانی نے اپنی تقریر میں نہرو کا تاریخی اقتباس پڑھا تو یہ شخصیت پھر عالمی سطح پر موضوعِ گفتگو بن گئی۔ دو دہائیوں سے ایک مخصوص دھارا ہر ناکامی کا ملبہ نہرو پر ڈالنے میں مصروف رہا، مگر ان کے فکری سفر، انسان دوستی اور جمہوری شعور کو نظر انداز کر دینا انصاف نہ ہوگا۔
ان کے یومِ پیدائش پر ہمارا مقصد یہ ہے کہ نہرو کو ان ہی کی آواز میں پیش کیا جائے۔ اس لیے عبد اللطیف اعظمی اور کشمیری لال ذاکر کی مرتب کردہ کتاب "جواہر لال نہرو: اپنی تحریروں کی روشنی میں” سے منتخب اقتباسات شامل کیے گئے ہیں تاکہ قاری ان کی زندگی، ذہن اور مزاج کو براہِ راست محسوس کر سکے۔ بہت سی باتیں طوالت کے باعث چھوڑنی پڑیں، مگر شامل شدہ اقتباسات ان کی فکری دنیا کا واضح تعارف پیش کرتے ہیں۔
نہرو پر اردو میں متعدد کتب لکھی گئی ہیں، جن میں زیادہ تر انگریزی تصانیف کے تراجم شامل ہیں۔ چند اہم کتابیں:
"ناقابلِ فراموش نہرو” پی ڈی ٹنڈن (ترجمہ: محمد سمیع الدین)،
"جواہر لال نہرو” ایم چلاپتی راؤ (ترجمہ: کے بی شرما)،
"جواہر لال نہرو — باتصویر سوانح” بی بی آر نندا (ترجمہ: لکشمی چندریاس)،
اور "بچوں کے نہرو” ایم چلاپتی راؤ (ترجمہ: پریم نارائن)۔
1۔
اپنے حالات آپ لکھنا بڑا مشکل اور نازک معاملہ ہے ۔ اگر
انسان اپنی برائی کرے تو اپنا دل دکھتا ہے اور تعریف
کرے تو پڑھنے والوں کو برا لگتا ہے "( ایبر اہام کاؤلے)
خوش حال ماں باپ کا اکلوتا بچہ ، خصوصاً ہندوستان کے گھرانوں میں اکثر لاڈ پیار میں بگاڑ دیا جاتا ہے اور جب گیارہ برس کی عمر تک اس کے کوئی بھائی بہن نہ ہو، پھر تو وہ بگڑنے سے بچ ہی نہیں سکتا۔ میری دونوں بہنیں مجھ سے بہت چھوٹی ہیں اور ان میں بھی کئی سال کا فرق ہے اس لیے میرا بچپن تنہائی میں گزرا اور مجھے اپنی عمر کا کوئی ساتھی نہیں ملا، یہاں تک کہ اسکول کے بچوں کی صحبت سے بھی محروم رہا ، کیونکہ مجھے کنڈرگارٹن یا کسی اور مکتب میں داخل نہیں کیا گیا ، بلکہ گھر پر استانیاں اور اتالیق رکھ کر تعلیم دلائی گئی ۔ (21)
2۔
ہم لوگوں کا اصلی وطن کشمیر ہے۔ اب سے کوئی سوا دو سو برس پہلے اٹھارھویں صدی کے شروع میں ہمارے پر دادا کے باپ کشمیر کی پہاڑی وادی کو چھوڑ کر دولت اور شہرت کی تلاش میں نیچے کے زرخیز میدان میں آئے، یہ وہ زمانہ تھا کہ اورنگ زیب کی وفات کے بعد سلطنت مغلیہ کا زوال شروع ہوچکا تھا۔ فرخ سیر ہندوستان کا بادشاہ تھا ۔ ہمارے بزرگ جن کا نام راج کول تھا، کشمیر میں سنسکرت اور فارسی کے عالم کی حیثیت سے امتیاز رکھتے تھے۔ جب فرخ سیر کشمیر گیا تو اس کی نظر عنایت راج کول پر پڑی اور غالباً اسی کے حکم سے وہ 1716ء کے لگ بھگ ترک وطن کر کے دلی آگئے۔ بادشاہ نے انھیں جاگیر عطا کی جس میں ایک مکان بھی تھا۔ یہ مکان نہر کے کنارے واقع تھا ، جس کی وجہ سے راج کول نہرو کہلانے لگے اب خاندان کا نام "کول” کی جگہ "کول نہرو” قرار پایا ۔ آگے چل کر کول تو اُڑ گیا اور صرف نہرو باقی رہ گیا۔
3۔
اس کے بعد جو بدامنی کا زمانہ آیا اُس میں ہمارے خاندان کو تقدیر نے بہت سے نشیب و فراز دکھائے ۔ ہماری جاگیر گھٹتے گئے بالکل ختم ہوگئی میرے پردادا لکشمی نرائن نہرو نے سرکار کمپنی ” کی ملازمت اختیار کی اور اس کی طرف سے دلی کے برائے نام دربار میں وکیل بناکر بھیجے گئے۔ میرے دادا گنگا دھر نہرو 1857ء کی شورش سے پہلے کچھ دن دلی کے کوتوال رہے تھے ۔ 1861 ء میں 34 برس کی عمر میں ان کا انتقال ہو گیا ۔
4۔ میرے چچا ہائی کورٹ میں جو نیا نیا قائم ہوا تھا ، وکالت کرنے لگے اور جب وہ آگرے سے الہ آباد منتقل ہوا تو ہمارا خاندان بھی وہیں چلا گیا۔ اس وقت سے الہ آباد ہمارا وطن ہو گیا۔ اسی شہر میں ایک مدت کے بعد میں پیدا ہوا ۔ میرے چچا کا کام رفتہ رفتہ بہت بڑھ گیا اور ان کا شمار ہائی کورٹ کے چوٹی کے وکیلوں میں ہونے لگا ۔ اس عرصے میں میرے والد کانپور اور الہ آباد میں اسکول اور کالج کی تعلیم کی منزلیں طے کر رہے تھے۔ ابتدا میں انھوں نے صرف عربی فارسی پڑھی اور انگریزی کہیں بارہ چودہ برس کی عمر میں جاکر شروع کی ۔ اس کم سنی میں وہ فاری کی بہت اچھی استعداد رکھتے تھے مگر اسکول اور کالج کے زمانے میں ان کی شہرت زیادہ تر ان کی شرارتوں کی وجہ سے تھی۔ (24)
5۔
۔ ایک بار میں نے انھیں کیرٹ یا کوئی اور لال رنگ کی شراب پیتے ہوئے دیکھا ۔ ویسکی کو تو میں پہچانتا تھا اس لیے کہ میں نے والد کو اور ان کے دوستوں کو اکثر اسے پیتے ہوئے دیکھا تھا مگر اس نئی سرخ چیز کو دیکھ کر میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے اور میں نے دوڑ کر اماں جان سے کہا کہ ابا جان خون پی رہے ہیں ۔(28)
6۔
میرے دوسرے ہمراز والد کے ایک محرر منشی مبارک علی تھے ۔ وہ بدایوں کے ایک آسودہ حال خاندان سے تھے ۔ ۱۸۵۷ء کی شورش میں ان کا گھر اجڑ گیا اور انگریزوں کی فوج نے ان کے خاندان کو قریب قریب ختم کر دیا ۔ مصیبت نے ان کے قلب میں رقت اور درد پیدا کر دیا تھا اور وہ سب سے، خصوصاً بچوں سے بڑی نرمی سے پیش آتے تھے میرے لئے ان کا دامن جانا بوجھا امن کا ٹھکانا تھا ۔ جب کبھی اُداس یا پریشان ہوتا، انھیں کے پاس پہنچتا۔ ان کی شاندار سفید داڑھی کو دیکھ کر میں بچپن کی سادگی سے یہ سمجھتا تھاکہ یہ پراچین وقتوں کے آدمی ہیں جنھیں کئی جنگ کی باتیں یاد ہیں ۔ ان کی گود میں بیٹھ کر حیرت سے آنکھیں پھیلائے میں ان کی بیشمار کہانیوں میں سے الف لیلہ اور دوسری کتابوں کے قصے یا 57ء اور 58ء کے حالات سنا کرتا تھا۔ منشی جی کا انتقال بہت برسوں کے بعد میری جوانی کے زمانے میں ہوا۔ وہ مجھے اب تک یاد ہیں، اور ان کی یاد کو میں دل و جان سے زیادہ عزیز رکھتا ہوں ۔(30)
7۔
مئی ۱۹۰۵ء میں جب میری عمر پندرہ برس کی تھی، میرے والد مجھے میری والدہ اور میری چھوٹی بہن کو لے کر انگلستان روانہ ہوئے ۔ آخر مئی کی کسی تاریخ کو لندن پہنچے ۔ دوسرے ہی دن ڈربی کی گھڑ دوڑ تھی اور ہم سب اس کا تماشا دیکھنے گئے ۔ وہاں سے لوٹ کر ہماری ملاقات ڈاکٹر مختار احمد انصاری سے ہوئی جو اُس زمانے میں ایک ذہین اور مستعد نوجوان تھے اور اپنی تعلیم میں نہایت اعلیٰ درجے کی کامیابی حاصل کر چکے تھے ۔ اُن دنوں وہ لندن کے ایک ہسپتال میں ہاؤس سرجن تھے۔(34)
8۔
ہمارے ہوسٹل میں اور دوسرے ہوسٹلوں میں چند یہودی بھی تھے ۔ ان لوگوں سے اچھی خاصی نبھتی تھی مگر دلوں میں سامی نسل سے کسی قدر نفرت ضرور موجود تھی ۔ یہ "ملعون یہودی” کہلاتے تھے اور قریب قریب غیر شعوری طور پر میں بھی یہ سمجھنے لگا کہ ان سے نفرت کرنا فیشن میں داخل ہے مگر اصل میں مجھے سامی نسل سے کوئی کد نہ تھی اور آگے چل کر کئی یہودیوں سے میری بڑی دوستی ہو گئی ۔(36)
9۔
شروع اکتوبر ۱۹۰۷ ء ، سترہ اٹھارہ برس کی عمر، ٹرینٹی کالج، کیمبرج کا منظر، میرا دل فخرو مسرت سے معمور تھا ۔ اب میں یونیورسٹی کا طالب علم تھا اور اسکول کے مقابلے میں بہت آزاد تھا ۔ لڑکپن کی بیڑیاں کٹ چکی تھیں اور وہ دن آگیا تھا کہ میں اپنے آپ کو بالغ کہہ سکوں۔ میں کیمبرج کے چوڑے چوکوں اور تنگ گلیوں میں اکڑتا پھرتا تھا اور اگر کوئی جاننے والا مل جاتا تو مجھے بڑی خوشی ہوتی تھی ۔
تین سال میں کیمبرج میں رہا اور یہ تین سال بے خلل سکون اور خاموشی سے گزر گئے جیسے کیم ندی دھیرے دھیرے بہتی ہے ۔ یہ بھی کیا خوش گوار زمانہ تھا :۔ بہت سے دوست تھوڑا سا کام ، تھوڑا سا کھیل اور دائرہ نظر کا آہستہ آہستہ بڑھنا۔ میں نے سائنس کی سند حاصل کی جس میں میرے مضمون کیمیا ، ارضیات اور نباتات تھے مگر میری دلچسپی انھیں مضامین تک محدود نہ تھی میں جن لوگوں سے کیمبرج میں یا تعطیل کے زمانے میں لندن میں ملتا تھا وہ عالمانہ انداز سے ادب تاریخ سیاسیات اور معاشیات پر گفتگو کیا کرتے تھے ۔ پہلے پہل تو ان علمیت جتانے والوں کی باتیں میری سمجھ میں نہیں آتی تھیں ۔ مگر جب میں نے تھوڑی سی کتابیں پڑھ ڈالیں تو مجھے اس کا ڈھب آگیا اور کم سے کم اتنا ہو گیا کہ میں گفتگو کا سلسلہ جاری رکھ سکتا تھا اور معمولی موضوعوں سے اپنی ناواقفیت کا اظہار نہیں ہونے دیتا تھا۔ چنانچہ ہم نٹشے کے فلسفے (جس کا ان دنوں کیمبرج میں زور تھا ، برنارڈ شا کے دیباچوں اور لوایس ڈکنسن کی نئی کتابوں پر بحث کیا کرتے تھے ۔ ہم اپنے آپ کو بہت پختہ کار سمجھتے ۔ اور اخلاقی مسئلوں کا ذکر اس طرح کرتے تھے گویا ہم عام معیار سے بہت اونچے ہیں اور ایوان بلاک ہیولاک ایلیس کرافٹ ایبنگ، آٹو وائینگر کے حوالے اس بے پروائی سے دیتے تھے جیسے ان کی سب کتا بیں چاٹے بیٹھے ہیں . اپنے نزدیک ہم اس موضوع سے آنی واقفیت رکھتے تھے جتنی ایک غیر ماہر فن کو ہونی چاہئے۔ (38)
10۔
میرا سارا وقت پڑھائی کھیل اور تفریح میں گزرتا تھا اور میرے سکون میں خلل ڈالنے والی صرف ایک ہی چیز بھی یعنی ہندوستان کی سیاسی کشمکش ۔ کیمبرج میں جن کتابوں کا اثر میرے سیاسی خیالات پر پڑا، ان میں ٹاؤنسینڈ کی کتاب "ایشیا اور یورپ” بھی تھی ۔
۱۹۰۷ء سے کئی سال تک ہندوستان میں ایک ہیجان کی سی کیفیت رہی ۔ ۱۸۵۷ء کی شورش کے بعد پہلا موقع تھا کہ یہ ملک بدیسی حکومت کے آگے چپ چاپ سر جھکانے کے بجائے اس سے لڑنے پر آمادہ تھا ۔ تلک کی جدو جہد اور ان کا قید ہونا ، آروند گھوش کی کوشش اور بنگال کے لوگوں کا سودیشی اور بائیکاٹ کا حلف اٹھانا ، ان واقعات کی خبریں انگلستان پہنچتی تھیں اور ہم ہندوستانیوں کے دلوں کو جوش سے بھر دیتی تھیں۔ ہم سب کے سب تلک کے پیرو تھے جو ہندوستان میں انتہا پسند کہلاتے تھے۔(40)
11۔
میرے کیمبرج کے ساتھیوں میں کئی آدمی تھے جنھوں نے آگے چل کر ہند دوستان میں کانگرس کے کاموں میں نمایاں حصہ لیا ۔ ج ۔ م سین گیتا میرے کیمبرج پہنچنے کے تھوڑے دن بعد وہاں سے رخصت ہو گئے۔ سیف الدین کچلو ، سید محمود اور تصدق احمد خاں شہروانی ، کم و بیش میرے ہم عصر تھے۔ شاہ محمد سلمان بھی جو اب الہ آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس ہیں میرے زمانے میں وہاں پڑھتے تھے۔ میرے اور ہم عصر سول سروس کے رکن یا وزیر بن کر پھلے پھولے۔(42)
12۔
سخت اور شدید الفاظ بالکل بے کار ہیں جب ہیں کہ عمل تک کہ عمل بھی زبان کا ہم رنگ نہ ہو۔ (43)
13۔
سماجی حیثیت سے دیکھئے تو ۱۹۰۷ء میں ہندوستانی قومیت کا نئے سرے سے ابھرنا کھلی ہوئی رجعت پسندانہ تحریک تھی جیسا کہ مشرق کے اور ملکوں میں ہوا تھا ۔ ہندوستان میں بھی قومیت کی نئی تحریک لازمی طور پر مذہبی چیز بن گئی۔ (44)
14۔
۱۹۱۲ء کی گرمی میں، میں نے بیرسٹری کی سند حاصل کرلی اور اسی سال خزاں کے موسم میں سات برس کے قیام کے بعد انگلستان سے ہندوستان روانہ ہوا ۔ اس عرصے میں دو مرتبہ تعطیل میں گھر آ چکا تھا، مگر اب کی بار مستقل طور پر واپس آرہا تھا۔ جب میں نے بمبئی میں قدم رکھا تو سوا خود بینی کے کوئی صفت مجھ میں نظر نہیں آتی تھی ۔(47)
15۔
میری شادی دہلی میں 1916ء میں ہوئی۔ بسنت پنچمی کا دن تھا جو ہندوستان میں موسم بہار کی آمد آمد کی خبر دیتا ہے ۔ اس سال کی گرمیوں میں چند مہیغنے کے لئے میں کشمیر گیا۔ اپنے کہنے کے لوگوں کو تو میں نے نیچے وادی میں چھوڑا اور خود اپنے ایک رشتے کے بھائی کے ساتھ کئی ہفتے پہاڑوں پر گھومتا رہا (46,)
16۔
منزل مقصود نظر آئے یا نہ آئے سفر میں بجائے خود ایک لذت ہے۔ والٹیر ڈے لا مبر نے سچ کہا ہے ۔ع
” یہ پہاڑ میرے دل میں سمائے ہوئے ہیں ان کے خطروں میں شام کے شفق کی رنگینی ہے اور اب تک میری روح میری آنکھوں میں گھلی ہوئی تمہاری پرسکون برف کی تمنا میں تڑپ رہی ہے ۔(50)
17۔
ہمارے سامنے علم کا بہت بڑا میدان ہے اس لئے کوئی وجہ نہیں کہ ہمیں بے شغلی کی شکایت ہویا ہم اس بیوقوف اور مغرور آدمی کی طرح جس کا قصہ ہیونگ سانگ نے لکھا ہے یہ سمجنے لگیں کہ ہمیں سب کچھ آگیا ہے اور اب ہم بہت ہی دانشمند ہو گئے ہیں۔ بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ یہ ہی اچھا ہے کہ ہم بہت زیادہ دانشمند نہیں بن سکے، اس لئے کہ اگر دنیا میں ایسے دانشمند ہوں بھی تو وہ ضرور دل میں کڑھتے ہوں گے کہ افسوس اب کوئی ایسی چیز باقی نہیں جسے ہم سیکھیں ۔ وہ نئی نئی دریافت کرنے اور نیا علم حاصل کرنے کی مسرت سے محروم ہیں لیکن ہم میں سے جو چاہے وہ اس نعمت کو حاصل کر سکتا ہے ۔(61)
18۔
اکثر ہم کو یہ الجھن ہوگی کہ ہم کیا کریں اور کیا نہ کریں ۔ صحیح اور غلط راستے میں امتیاز کرنا آسان نہیں ہے ۔ اس لئے میں تمھیں اس کے پرکھنے کی ایک ترکیب بتاتا ہوں ۔ جب کبھی تھیں کسی معاملے میں دگھدھا ہو تو اس سے کام لینا ۔ امید ہے کہ اس سے تمھیں بڑی مدد ملے گی ۔ کوئی کام چھپ کر یا کوئی ایسا کام جسے چھپانے کی ضرورت ہو کبھی نہ کرنا کیونکہ پھیلانے کی خواہش کے معنی یہ ہیں کہ تم ڈرتی ہو اور ڈر بہت بری چیز ہے۔ یہ تمھارے شایان شان نہیں بس ہمت سے کام لو پھر سارے کام بن جائیں گے تمھارے دل میں ہمت ہے تو ڈر پاس نہ پھٹکے گا اور تم کوئی ایسی بات نہ کرو گی جس کے ظاہر ہونے سے تمھیں شرم آئے۔(63)
19۔
گاندھی جی سے میں پہلے پہل 1916 ء میں لکھنو کانگریس میں ملا تھا۔ جنوبی افریقہ میں انھوں نے صورت کا جس دلیری سے مقابلہ کیا تھا ، ہم سب اس کے معترف اور مداح تھے۔ لیکن ہم نوجوانوں کو وہ عجیب و غریب شخص اور کچھ غیر سیاسی آدمی معلوم ہوتے تھے انہوں نے اس وقت کانگریس یا ملک کی سیاست میں حصہ لینے سے انکار کر دیا اور صرف جنوبی افریقہ کے ہندوستانیوں کے معاملے تک اپنی سرگرمیوں کو محدود رکھا۔ اس کے کچھ عرصے بعد ہی انہوں نے چمپارن میں چائے کے کاشت کاروں کی حمایت میں جو معرکے فتح کئے ، ان سے ہم میں ایک نیا جوش پیدا ہوگیا ، ہمیں یہ دیکھ کر اطمینان ہوا کہ وہ ہندوستان میں بھی اپنے طریق کار پر عمل کرنے کو تیار ہیں اور اس سے کامیابی کی امید بھی ہوتی ہے۔(68)
20۔
کالج کے زمانے کے اشتراکی خیالات کب کے دب چکے تھے لیکن مطالعہ جاری تھا۔ اس لیے میرے دماغ میں اشتراکی عقائد کی چنگاریاں کبھی کبھی روشن ہو جاتی تھیں ۔ ابھی یہ باتیں بہت مبہم سی تھیں ، ان کی کوئی علمی بنیاد نہ تھی، بلکہ یہ محض قیاسی اور نوع انسانی کے مفاد سے متعلق تھیں، جنگ کے زمانے میں اور اس کے بعد بھی میرا محبوب مصنف برٹرینڈررسل تھا۔
21۔
۱۹۲۱، ہم لوگوں کے لیے غیر معمولی سال تھا۔ اس زمانے میں قوم پرستی، سیاسیات ، مذہب باطینت اور جنون کا ایک عجیب معجون مرکب بن گیا۔ اُدھر کسانوں کی تحریک چل رہی تھی اور بڑے شہروں میں مزدوروں کی تحریک بھی زور پکڑ رہی تھی۔ قوم پرستی اور ایک مبہم مگر گہری تصور پرستی بے چینی کے ان عناصر کو جن میں سے بعض ایک دوسرے کے مخالف تھے ، متحد کرنا چاہتی تھی اور اسے اس میں حیرت انگیز کامیابی ہوئی ۔ یہ قوم پرستی خود بھی ایک مرکب قوت تھی۔ اس میں تین اجزا الگ الگ نظر آرہے تھے یعنی ہندو قوم پرستی مسلم قوم پرستی (جس کی دلچسپی ایک حد تک ہندوستان سے باہر اسلامی ممالک سے وابستہ تھی ) اور ہندوستانی قوم پرستی جو مقتضائے وقت سے زیادہ مطابقت رکھتی تھی ، عارضی طور پر یہ تینوں قومیں مل جل گئی تھیں اور ساتھ ساتھ کام کر رہی تھیں ۔ ہر جگہ ” ہندو مسلمان کی جے” کے نعرے گونج رہے تھے۔ یہ دیکھ کر حیرت ہوتی تھی کہ گاندھی جی نے ان تمام فرقوں اور جماعتوں پر نہ جانے کیا جا دو کر دیا کہ یہ رنگ برنگ کا مجمع اکٹھا ہو کر ایک ہی طرف جھک پڑا ۔ (71)
22۔ قوم پرستی اصل میں ایک مخالفانہ جذبہ ہے۔ دوسری قوموں سے نفرت اور بیزاری اس کی غذا ہے۔ خصوصاً غلام ملک کی قوم پرستی تو سراسر بدیسی حکمرانوں سے نفرت کے جذبے پر منحصر ہے۔ (71)
23۔ ہم بے سوچے سمجھے زور شور سے بڑھے چلے جا رہے تھے سفر کا سرور ہمارے دل و دماغ پر چھایا ہوا تھا مگر منزل مقصود کا کوئی واضح تصور ہمارے سامنے نہیں تھا ۔ اب یہ خیال کر کے حیرت ہوتی ہے کہ ہم نے کس طرح تحریک کے نظری پہلو یعنی اس کے فلسفے اور مقصد کو قطعی طور پر نظرانداز کردیا تھا۔ ہم سب سوراج سوراج پکارتے تھے لیکن اس لفظ کا مفہوم ہر شخص اپنے خیال کے مطابق الگ الگ سمجھتا تھا۔ (72)
24۔ 1921ء میں سال بھر کانگریس کے کارکن ایک ایک کر کے برابر گرفتار ہوتے رہے اور سزا پاتے رہے مجموعی گرفتاریاں شروع نہیں ہوئی تھیں۔ علی برادران کو فوج میں بغاوت پھیلانے کے جرم میں طویل سزا مل چکی تھی جن الفاظ کے زبان سے نکالنے پر انہیں سزا ہوئی تھی ، سینکروں پلیٹ فارموں سے ہزاروں آدمیوں نے انہیں کو دہرایا۔ (76)
25۔۔
جیل ہی میں مارکس کا یہ نظریہ سمجھ میں آتا ہے کہ سلطنت یا ریاست وہ جبر و تشدد کا آلہ ہے جس کے ذریعے سب لوگ حکومت کرنے والے طبقے کی مرضی کے آگے سر جھکانے پر مجبور کئے جاتے ہیں۔ (95)
25۔ مجھے اس زمانے میں اور بہت سی چیزوں کے ساتھ ایک بڑی نعمت یہ حاصل ہوئی کہ میں زندگی کو ایک نہایت دلچسپ سفر سمجھنے لگا جس میں انسان بہت کچھ سیکھتا ہے ، بہت کچھ کرتا ہے۔ مجھے ہمیشہ محسوس ہوتا رہا کہ میں عقل اور تجربے میں ترقی کر رہا ہوں ۔ یہ احساس اب بھی ہے اور اس سے مجھے اپنے کاموں میں اور کتابوں کے مطالعہ میں خاص لطف آتا ہے اور زندگی اچھی طرح گزرتی ہے ۔ (96)
26 ۔ پہاڑ کو دور سے دیکھ کر اس پر چڑھنا سہل معلوم ہوتا ہے اور چوٹی اشارہ کرتی ہے کہ چلے آؤ مگر پاس پہنچ کر مشکل کا سامنا ہوتا ہے اور جتنا اوپر چڑھتے جائیے اتنا ہی راستہ کٹھن ہوتا جاتا ہے اور چوٹی دُور ہٹتی جاتی ہے، مگر پھر بھی پڑھنے کی کوشش بے کار نہیں، اس میں بجائے خود ایک لطف ہے۔ شاید زندگی کی قدر و قیمت سعی پر منحصر ہے۔ انجام پر نہیں ۔ اکثر راستے کا ڈھونڈھنا مشکل ہوتا ہے مگر غلط راستے کا پہچان لینا آسان ہے اور اگر انسان اس سے بچ کر چلے تب بھی غنیمت ہے۔ نہایت عجز و انکسار سے میں حکیم جلیل سقراط کا یہ قول نقل کرتا ہوں” مجھے نہیں معلوم موت کیا ہے۔ ممکن ہے وہ کوئی اچھی چیز ہو، اس لیے میں اس سے نہیں ڈرتا مگر یہ میں خوب جانتا ہوں کہ اپنے فرض سے منہ موڑنا برا ہے اور جس چیز سے بھلائی کا احتمال ہو اسے میں اس چیز پر ترجیح دیتا ہوں، جس میں کی برائی کا یقین ہے ” ۔(98)
تلاش ہند
27۔ ہندوستان سے مجھے قلبی تعلق تھا اور اس میں بہت سی چیزیں ایسی تھیں جو خود بخود میرے دل کو گرما دیتی تھیں ۔ پھر بھی میں اسے ایک اجنبی نقاد کی حیثیت سے دیکھتا تھا اور نہ صرف اس کی موجودہ حالت کو بلکہ بہت سی چیزوں کو جو پرانے زمانے کی یاد گار تھیں ناپسند کرتا تھا۔ میرا نقطہ نظر ایک حد تک مغربی تھا اور میں ہندوستان کا مطالعہ اس طرح کرتا تھا جس طرح کوئی مغربی دوست کرتا ۔ مجھے یہ شوق تھا کہ اس کے خیالات اور اس کی ہئیت کو بدل دوں اور اسے جدیدیت کا لباس پہنا دوں ، مگر اسی کے ساتھ میرے دل میں یہ شبہہ پیدا ہوتا تھا کہ میں جو یہ فیصلہ کرنے بیٹھا ہوں کہ ہندوستان کے قدیم ورثے کا بہت بڑا حصہ رد کر دینے کے قابل ہے، ہندوستان کو جانتا بھی ہوں یا نہیں۔ اس میں شک نہیں کہ بہت سی چیزیں ختم کر دینی چاہئیں اور ختم کر دینی پڑیں گی ، لیکن اگر ہندوستان کے اندر کوئی پائدار اور قابل قدر جوہر نہ ہوتا تو اسے جو عظمت حاصل ہوئی، وہ نہ ہوتی اور وہ ہزاروں برس تک مہذب زندگی نہ بسر کر سکتا ۔ سوال یہ ہے کہ وہ بیش بہا جوہر کیا ہے ؟ (102)
28۔ ہندوستان کے بڑے بڑے دریاؤں نے جو عظیم الشان پہاڑ سے نکل کر ہندوستان کے میدانوں میں بہتے ہیں ، میرے دل کو لبھایا اور مجھے اپنی تاریخ کے بے شمار مناظر یاد دلائے ۔ انڈس یا سندھ جس کی وجہ سے ہمارا ملک ہند اور ہندوستان کہلایا اور جس کو عبور کر کے ہزار ہا سال سے نسلیں اور قومیں اور قافلے اور لشکر ہندوستان آتے رہے ۔ برہم پتر جو تاریخ کے سلسلے سے کسی قدر الگ رہا ، لیکن پرانی کہانیوں کی بدولت مشہور ہے، شمال مشرقی ہمالیہ کی ایک وادی سے نکل کر خاموشی اور نزاکت کے ساتھ اونچے پہاڑوں کے درمیان اور درختوں کے ڈھکے ہوئے میدانوں میں بہتا ہوا جمنا ، جس کے ساتھ ناچ رنگ اور کھیل کود کی بے شمار کہانیاں وابستہ ہیں اور سب کی سرتاج گنگا جس نے ہندوستان کے دل کو اپنی محبت میں اسیر کر لیا ہے اور تاریخ کے آغاز سے اب تک کروڑوں اربوں انسانوں کو اپنی یا ترا کے لئے کھینچ بلایا ہے ۔ گنگا کی کہانی اس کے مبنع سے لے کر دہانہ تک اور قدیم زمانہ سے لے کر موجودہ زمانے تک در اصل داستان سے ہندستانی تمدن کی سلطنتوں کے عروج و زوال کی، شاندار اور باوقار شہروں کی، انسان کی جسمانی جد جہد اور ذہنی غور وفکر کی ، جس میں ہندوستان کے بڑے بڑے دماغ ہمہ تن مصروف رہتے تھے، زندگی کے اظہار واثبات اور ترک و انکار کی، نشیب و فراز کی ارتقا اور انحطاط کی موت اور حیات کی (103)
29۔
میں نے پرانی یادگاروں کی سیر کی، اجنتا ، ایلورا اور ایلیفٹا کے غاروں میں سنگ تراشی کے نمونے اور دیواروں کی تصویروں کا مطالعہ کیا اور آگرہ اور دہلی کے عہد متاخر کی خوبصورت عمارتیں دیکھیں جن کا ایک ایک پتھر زبان حال سے ہندوستان کی تاریخ سناتا ہے۔ (103)
30۔ کسی جماعت کسی قوم کی زندگی تغیر سے خالی نہیں ہوتی ، وہ برا بر دوسروں میں ملتی جلتی اور آہستہ آہستہ بدلتی رہتی ہے، کبھی ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ قریب قریب مرچکی اور پھر دفعتاً ایک نئی قوم کی شکل میں یا پرانی قوم کے ایک نئے روپ میں اُٹھ کھڑی ہوتی ہے، کبھی قدیم اور جدید میں بالکل قطع تعلق ہو جاتا ہے اور کبھی دونوں افکار و مقاصد کے زندہ رشتوں سے وابستہ رہتے ہیں ۔
تاریخ میں اس کی بہت سی مثالیں ہیں کہ پرانی اور جمی جمائی تہذیبیں رفتہ رفتہ مٹ گئیں یا دفعتہ ختم ہوگئیں اور نئی طاقت ور تہذیبوں نے ان کی جگہ لے لی ۔ کیا زندگی کی کوئی خاص طاقت، قوت کا کوئی اندرونی خزانہ ہوتا ہے جوکسی قوم یا تہذیب کو زندہ رکھتا ہے او اس کے بغیر تمام سعی و عمل اسی طرح بے کار ہے جیسے ایک بوڑھے کی یہ کوشش کہ وہ جوان بن جائے ۔(109)
31۔۔ جو ملک زمانہ دراز سے ایک مشترک تہذیبی پس منظر اور مشترک تصور زندگی رکھتا ہے، اس میں ایک مخصوص روح پیدا ہو جاتی ہے اور اس کے کل باشندوں پر اپنا نقش بٹھا دیتی ہے چاہے ان میں باہم کتنا ہی اختلاف کیوں نہ ہو ۔ (115)
32۔۔ وحدت کا خواب ہندوستان تہذیب کے آغاز سے دیکھ رہا ہے ، مگر وحدت کا تصور یہ نہیں تھا کہ کوئی خارجی قوت زبردستی سب کو ایک رنگ میں رنگ دے، رسوم و عقائد کے ایک مقررہ سانچے میں ڈھال دے، ہندوستان کی وحدت اس سے کہیں زیادہ گہری تھی ۔ اس کے دائرے کے اندر رسوم و عقائد کے معاملے میں انتہائی رواداری برتی جاتی تھی اور اختلاف نہ صرف جائز بلکہ اچھا سمجھا جاتا تھا ۔(117)
33۔ انتخابات جمہوری طریقے کا لازمی جز ہیں اور ان کے بغیر کسی طرح کام نہیں چل سکتا ، لیکن اکثر یہ انسانی فطرت کے برے پہلو کو نمایاں کر دیتے ہیں اور یہ ضروری نہیں کہ ان میں ہمیشہ وہی شخص کامیاب ہو جو دوسروں سے بہتر ہے : کامیاب ہو جو دوسروں سے بہتر ہے. حساس طبیعت والے اور وہ لوگ جو اپنی کامیابی کے لئے کھرے اور بھدے طریقے استعمال کرنے پر تیار نہیں، نقصان میں رہتے ہیں ۔ اس لئے وہ ان مقابلوں سے دور ہی رہنا پسند کرتے ہیں ۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جمہوریت ان لوگوں کی جاگیر ہے، جن کا احساس کندا اور آواز بلند ہے اور ان کے ضمیر میں کافی لچک ہے۔ (121)
34۔ میں نے حرف شناس یا معمولی پڑھے لکھے لوگوں میں کوئی ایسی خاص بات نہیں دیکھی،کہ ان کی رائے ان جفاکش کسانوں کی رائے سے زیادہ قابل وقعت سمجھی جائے، جو ان پڑھ ہونے کے باوجود اپنے محدود دائرے میں خاصے سمجھ دار ہوتے ہیں ۔(122)
35۔ ہندوستان کے لوگوں میں یہ مادہ حد سے زیادہ ہے کہ زمانے کے حالات کے سامنے سر تسلیم خم کر دیتے ہیں اور جو کچھ پیش آئے، اسے چپ چاپ سہتے ہیں ، لیکن اسی کے ساتھ ایک خاص نرمی اور شرافت ہے جو ہزاروں سال کی تہذیبی میراث ہے اور جسے دنیا بھر کی تکلیفیں اور مصیبتیں اب تک نہیں مٹاسکیں۔ (126)
36۔ کلایو نے بنگال کے شہر مرشد آباد کے متعلق لکھا تھا کہ یہ شہر اتنا وسیع، آباد اور دولت مند ہے، جتنا کہ لندن۔ فرق بس یہ ہے کہ اعلیٰ طبقے کے لوگ ادنی طبقے کے لوگوں سے مال و دولت میں بہت زیادہ ہیں ” مشرقی بنگال کا شہر ڈھاکہ اپنی ململ کی وجہ سے مشہور تھا۔ یہ دونوں شہر ہندوستان کے سرحدی علاقے میں واقع تھے، ملک کے اندر تو ان سے بھی بڑے بڑے شہر موجود تھے۔ ان کے علاوہ صنعت اور تجارت کے بہت سے مرکز ملک میں پھیلے ہوئے تھے اور بازار کی قیمتوں کی خبر رسانی کا ایسا عمدہ نظام قائم تھا کہ خبریں بہت جلد ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچ جاتی تھیں۔۔ (128)
37۔ کسی ملک میں ایک تجارتی کمپنی کی فرماں روائی شاید حکومت کی بدترین شکل ہے ” ۔ (129)
38۔ شاید یہ بات قیاس سے دور نہیں ہے کہ اگر برطانیہ نے ہمارا بوجھ اپنے سر نہ لیا ہوتا اور ہمیں اتنی مدت تک خود اختیاری حکومت کا وہ مشکل طریقہ جس سے بہ قول اس کے ہم نا آشنا تھے، سکھانے کی کوشش نہ کی ہوتی، تو ہم نہ صرف کہیں زیادہ آزاد اور خوش حال ہوتے ، بلکہ علوم و فنون اور اُن تمام چیزوں میں بھی ، جو زندگی کو زندگی بناتی ہیں، کہیں زیادہ آگے بڑھ گئے ہوتے ہے۔ (132)
جگ بیتی
39۔ ہر چیز برابر بدلتی رہتی ہے ، دراصل انہیں تبدیلیوں کے تذکرے کا نام تاریخ ہے ۔ اگر دنیا میں بہت کم تبدیلیاں ہوئی ہو تیں تو تاریخ بہت چھوٹی ہوتی ۔(133)
40۔
زمانہ کیسا بدل گیا ، اور اب پھر ہمارے دیکھتے دیکھتے بدل رہا ہے ۔ تاریخ عموماً صدیوں میں بہت آہستہ آہستہ اپنا کام کرتی ہے ۔ ہاں کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ حالات بڑی تیزی سے بدلتے ہیں اور یکا یک انقلاب ہو جاتا ہے، چنانچہ آج کل ایشیا میں تاریخ نہایت تیزی سے بدل رہی ہے اور ہمارا یہ قدیم بر اعظم اب گہری نیند سے بیدار ہو رہا ہے ۔ آج دنیا کی نظریں اس پر لگی ہوئی ہیں، کیونکہ ہرشخص یہ جانتا ہے کہ مستقبل کی تشکیل میں ایشیا کا بہت بڑا حصہ ہوگا ۔(136)
41۔۔ جو لوگ کسی مقصد کے لئے جان دینے کو تیار ہوتے ہیں وہ فتح مند رہتے ہیں ۔(145)
42۔ آپ کو ہر چیز میں خطرہ کیوں نظر آتا ہے اور آپ پہلے ہی سے تمام مشکلات کا حساب کیوں لگانے لگتے ہیں۔ اگر ہر معاملہ میں آپ ہر چیز کے نفع نقصان کو تولنے لگیں، تو دنیا میں کبھی کوئی کام نہیں کر سکتے۔ آدمی اگر ہر چیز سے بھلائی کی توقع رکھے اور اسے دنیا بھر کی تکلیفیں اٹھانی پڑیں تو یہ اس سے بہتر ہے کہ اسے کوئی تکلیف نہ ہو لیکن دل میں ہر وقت آنے والی تکلیفوں کا اندیشہ رہے ۔ (145)
43۔ ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ جب تک ہم خطروں کی گھاٹیوں میں سے ہو کر نہیں گزریں گے، اپنی منزل مقصود تک نہیں پہنچ سکتے ۔ (147)
44۔ ہماری دفاعی خدمات میں بہ مشکل کوئی مسلمان باقی رہ گیا ہے ۔ دہلی کے اتنے بڑے سنٹرل سکریٹریٹ میں معدودے چند مسلمان ہیں ، شاید صوبوں میں صورت حال کسی قدر بہتر ہو مگر بہت زیادہ نہیں۔ جس چیز کا مجھے زیادہ احساس ہے، وہ یہ ہے کہ اس صورت حال کو سدھارنے کی کوئی کوشش نہیں کی جارہی ہے۔ اگر اس صورت حال کو روکا نہیں گیا تو اور زیادہ خراب ہونے کا اندیشہ ہے۔(180)
45۔ ہمارے لیے یہ کہنا بہت آسان ہے کہ تقررات کے سلسلے میں ہم کسی فرقہ واران اور ایسے ہی دوسرے احساسات سے بالکل کام نہیں لیتے ہیں ۔ فرقہ پرستی اور اس کے طریق کار کا میں حامی نہیں ہوں اور میرے نزدیک ہندوستان میں یہ انتہائی خطرناک ذہنیت ہے، جس کا ہر محاذ پر مقابلہ کرنا چاہئے ۔(180)
46۔ اردو کے مسئلے جس طرح ہندوستان کے مختلف حصوں میں عہدہ برآ ہونے کی کوشش کی جارہی ہے، اس سے مجھے بہت دکھ پہنچا ہے۔ یہ سب محض تہذیبی وجوہ کی بنا پر نہیں ہے بلکہ اس سے کہیں زیادہ سیاسی اسباب کی بنا پر ہے۔ (182)
47۔ تہذیبی طور پر اردو ان رجحانات کی حامل رہی ہے، جن سے ماضی میں ہندی کو تقویت ملی ہے اور یہ بات مستقبل میں بھی ہو سکتی ہے ۔ یہ یقیناً ہندی کی حریف نہیں ہے۔ اور یہ ممکن بھی نہیں ہے۔ (183)
48۔ اردو اور اس کے رسم خط کو دبانے کا تاتم پیدا کرنا ایک غلط پالیسی ہے اور ہمارے تہذیبی نظریے کو محدود کرنا ہے اور ہمارے آئینی منصوبے کے خلاف ہے ۔ (184)
49۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اردو اور اس کے رسم الخط سے متعلق موجودہ پالیسیوں کی وجہ سے نہ صرف مسلمانوں میں بلکہ خاصی حد تک ہندوؤں اور دوسروں میں بھی محرومی اور نا امیدی کا گہرا احساس پایا جاتا ہے۔ کچھ صوبوں میں حکومت نے اردو کی حوصلہ شکنی کے واضح اقدامات کیے ہیں اور ایسے اسکولوں کی مالی امداد روک دی ہے، جہاں اردو پڑھائی جاتی ہے۔ بہت سے بچے اور ان کے والدین جو اردو پڑھنے کے خواہش مند تھے اب اس سے محروم ہیں۔ بہت سی جگہوں پر اردو کے خلاف تیز اور جارحانہ تحریکیں چلائی جا رہی ہیں گویا اردو ہماری کوئی خطرناک دشمن ہے، اگر ایسا ہی ہے تو ہم انھیں جو اس کو چاہتے ہیں، نہ صرف ناراض کریں گے بلکہ لڑائی پر اکسائیں گے بھی۔ میں اس موضوع پر بہت متفکر ہوں۔ اس لیے کہ ایسا کرنے سے میرے تمام تہذیبی معیار متاثر ہوتے ہیں ۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ ہندوستان کی یکجہتی کا مستقبل بھی مجھے بگڑتا ہوا نظر آتا ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ ہم میں سے زیادہ تر اس دانشمندی کو فراموش کر چکے ہیں جس کا گاندھی جی نے اس ملک کے بعض اہم مسلوں کو سلجھانے کے سلسلے میں استعمال کیا تھا ۔ ایسا ہی اہم مسئلہ زبان کا بھی تھا اور انھوں نے اردو کی حوصلہ افزائی کرنے کے لیے ہم پر بہت زور ڈالا تھا ۔ (184)

