حیدرآباد کی قدیم مسجد کے احاطے میں مدرسہ تنازع کا مرکز
حیدرآباد کی سلطان پور بستی میں واقع تین سو سال پرانی جامع مسجد حسینی اس وقت سیاسی تنازع کے گھیرے میں ہے۔ مسجد کے احاطے میں برسوں سے مدرسہ دارالعلوم نعمانیہ قائم ہے، جہاں پچھتر طلبہ دینی اور عصری تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ مقامی بی جے پی رہنماؤں نے مدرسے کو "غیر قانونی” قرار دے کر اس کی بندش کا مطالبہ کیا ہے اور الزام لگایا ہے کہ یہاں روہنگیا مسلمانوں کو پناہ دی گئی ہے۔

یہ تنازع اس سال اپریل میں اس وقت نمایاں ہوا جب علاقے کے چند ہندو بچوں نے ’بودرائی‘ نامی ایک پتھر کی بے حرمتی کی، جس کے بعد ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان کشیدگی پیدا ہوئی اور پولیس کو مداخلت کرنی پڑی۔ اس کے بعد بی جے پی کارکنوں نے مسجد اور مدرسے کے خلاف اپنی مہم تیز کر دی۔ کلیریون کے مطابق، احتجاجی مظاہروں میں بی جے پی کے ریاستی سکریٹری سرینواس ریڈی نے بھی شرکت کی اور مدرسہ بند کرانے کا مطالبہ دہرایا۔
مدرسہ دارالعلوم نعمانیہ کے نگران مولانا اکبر نے ان الزامات کی سختی سے تردید کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ "ہمارے تمام طلبہ تلنگانہ کے مختلف دیہی اور شہری علاقوں سے ہیں، کسی روہنگیا کا یہاں وجود نہیں ہے۔ یہ سب سیاسی ہتھکنڈے ہیں جن کے ذریعے مسجد کی زمین پر قبضہ جمانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔” ان کے مطابق مدرسہ سات برس سے مسلسل چل رہا ہے اور یہاں قرآن و دینیات کے ساتھ ساتھ انگریزی، ریاضی اور سائنس بھی پڑھائی جاتی ہے۔
بی جے پی رہنما راما کرشنا ریڈی کا کہنا ہے کہ انہیں شکایات ملی ہیں کہ مدرسہ بغیر کسی باضابطہ منظوری کے چل رہا ہے اور غیر مقامی افراد کو یہاں ٹھہرایا گیا ہے، اس لیے اس پر فوری کارروائی ضروری ہے۔
ایک مقامی دکاندار محمد عمران نے کہا کہ "یہ مسجد صدیوں سے ہماری برادری کا مرکز رہی ہے۔ اس پر جھوٹے الزامات لگا کر نشانہ بنانا افسوسناک ہے اور اس سے علاقے میں غیر ضروری کشیدگی پھیل رہی ہے۔”
مجلس بچاؤ تحریک کے ترجمان امجد اللہ خان نے الزام عائد کیا ہے کہ ہندوتوا تنظیمیں مسجد کے احاطے سے مدرسہ ختم کرانے کی کوشش کر رہی ہیں تاکہ زمین پر قبضہ آسان ہو سکے۔ انسانی حقوق کے کارکنان نے بھی اس معاملے کو اقلیتی اداروں اور اوقافی جائیداد کے تحفظ کے بڑے سوال سے جوڑا ہے۔
فی الحال تلنگانہ پولیس نے کسی واضح مؤقف کا اظہار نہیں کیا اور نہ ہی وقف بورڈ کی جانب سے اس زمین کی ملکیت پر کوئی وضاحت سامنے آئی ہے۔ معاملہ اب صرف زمین کا نہیں رہا، بلکہ یہ سوال بھی اہم ہے کہ کیا تاریخی مساجد اور مدارس کو سیاسی دباؤ اور فرقہ وارانہ مہم سے محفوظ رکھا جا سکے گا یا نہیں۔
