سپریم کورٹ پیر کو وقف ترمیمی ایکٹ 2025 پر عبوری فیصلہ سنائے گی
نئی دہلی، 15 ستمبر — سپریم کورٹ نے پیر کو فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ وقف ترمیمی ایکٹ 2025 میں "وقف بائی یوزر” کو ختم کرنا درست ہے اور اسے بادی النظر میں غیر معقول نہیں کہا جا سکتا۔ عدالت نے اس شق پر روک لگانے سے انکار کر دیا۔

"وقف بائی یوزر” وہ تصور تھا جس میں کسی جائیداد کو وقف نامہ کے بغیر بھی لمبے عرصے تک عوامی یا مذہبی استعمال کی بنیاد پر وقف مان لیا جاتا تھا۔ 2025 کی ترمیم کے بعد وقف ایکٹ 1995 کی دفعہ 3(ر)(i) ختم کر دی گئی، جو اس تصور کو تسلیم کرتی تھی۔
عرضی گزاروں نے کہا کہ اس سے پرانے اوقاف متاثر ہوں گے کیونکہ ان کے پاس وقف نامہ نہیں ہے۔ لیکن عدالت نے کہا کہ 1923 سے وقف کی رجسٹریشن لازمی ہے۔ اگر ایک صدی تک رجسٹریشن نہیں ہوئی تو اب اعتراض بے معنی ہے۔
چیف جسٹس بی آر گوائی اور جسٹس اے جی مسیح پر مشتمل بینچ نے کہا:
"اگر متولی سو سال تک وقف رجسٹرڈ نہیں کرا سکے تو اب یہ مطالبہ نہیں کر سکتے کہ رجسٹریشن کے بغیر بھی وقف مانا جائے۔”
عدالت نے مزید کہا کہ وقف نامہ نہ ہونے پر بھی رجسٹریشن ممکن تھا۔ صرف وقف کی ابتدا، نوعیت اور مقصد کی تفصیل دینا کافی تھا۔ اگر 30 سال تک درخواست ہی نہیں دی گئی تو اب شرط کو غیر معقول کہنا درست نہیں۔
عدالت نے نشاندہی کی کہ "وقف بائی یوزر” کے نام پر بڑی سرکاری زمینوں پر قبضے ہوئے ہیں۔ ایسے غلط استعمال کو روکنے کے لیے یہ شق ختم کرنا ضروری تھی۔ عدالت نے واضح کیا کہ اس تبدیلی کا اطلاق صرف نئے قانون کے نفاذ سے ہوگا، پرانے اوقاف پر اس کا اثر نہیں پڑے گا۔
رجسٹریشن لازمی
سپریم کورٹ نے وقف ایکٹ کی دفعہ 36 میں کی گئی ترمیم پر بھی روک لگانے سے انکار کیا۔ اب ہر وقف کی رجسٹریشن لازمی ہوگی اور 2025 کے بعد کوئی وقف باضابطہ وقف نامہ کے بغیر قائم نہیں کیا جا سکے گا۔ عدالت نے رجسٹریشن کے لیے چھ ماہ کی مہلت بھی دی ہے۔
حتمی سماعت باقی
عدالت نے واضح کیا کہ یہ رائے بادی النظر ہے اور مقدمے کی حتمی سماعت ابھی باقی ہے۔ فریقین کو موقع دیا جائے گا کہ وہ آئینی اور قانونی پہلوؤں پر مکمل دلائل پیش کریں، اس کے بعد ہی اصل فیصلہ سنایا جائے گا۔
