سپریم کورٹ پیر کو وقف ترمیمی ایکٹ 2025 پر عبوری فیصلہ سنائے گی
نئی دہلی، 15 ستمبر — سپریم کورٹ نے آج وقف (ترمیمی) ایکٹ 2025 کی کچھ دفعات پر حکم امتناع جاری کیا۔ چیف جسٹس بی آر گوائی اور جسٹس اے جی مسیح پر مشتمل بینچ نے درج ذیل شقوں میں مداخلت کی۔

1. پانچ سال کی شرط — دفعہ 3(1)(ر) میں یہ شرط رکھی گئی تھی کہ کوئی شخص وقف بنانے کے لیے کم از کم پانچ سال سے اسلام پر عمل کر رہا ہو۔ عدالت نے اس شرط کو معطل کر دیا ہے۔ فیصلہ سناتے ہوئے کہا گیا کہ جب تک ریاستی حکومتیں اس کی جانچ کا باضابطہ طریقہ نہیں بناتیں، یہ شرط من مانی طاقت کے استعمال کا باعث بن سکتی ہے۔
2. دفعہ 3سی کی شقیں —
دفعہ 3سی(2) کی وہ شق، جس میں کہا گیا تھا کہ وقف جائیداد کو اس وقت تک وقف نہیں مانا جائے گا جب تک سرکاری افسر یہ رپورٹ نہ دے کہ زمین پر قبضہ ہے یا نہیں، معطل کر دی گئی۔
دفعہ 3سی(3) کو بھی معطل کر دیا گیا، جس میں کہا گیا تھا کہ اگر افسر یہ طے کرے کہ زمین سرکاری ہے تو وہ ریونیو ریکارڈ میں ترمیم کرے گا اور رپورٹ حکومت کو دے گا۔
اسی طرح دفعہ 3سی(4) بھی معطل کر دی گئی، جس میں ریاستی حکومت کو ہدایت دی گئی تھی کہ وہ افسر کی رپورٹ ملنے پر وقف بورڈ کے ریکارڈ میں ترمیم کرائے۔
چیف جسٹس گوائی نے کہا کہ "کلیکٹر کو شہریوں کے حقوق طے کرنے کا اختیار دینا اختیارات کی علیحدگی کے خلاف ہے۔ ایگزیکٹو کو یہ حق نہیں دیا جا سکتا۔” عدالت نے مزید وضاحت کی کہ جب تک افسر کی رپورٹ کو حتمی شکل نہیں دی جاتی، جائیداد کے حقوق متاثر نہیں ہوں گے۔ وقف جائیداد کے عنوان کا فیصلہ دفعہ 3سی کے تحت جب تک مکمل نہ ہو، ٹریبونل یا ہائی کورٹ کے حکم کے بغیر نہ تو وقف کو جائیداد سے بے دخل کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی ریونیو ریکارڈ میں تبدیلی ہوگی۔ البتہ، جب ایک بار دفعہ 3سی کے تحت انکوائری شروع ہو جائے، اور دفعہ 83 کے تحت فیصلہ نہ آ جائے، اس وقت تک اور اپیل کی صورت میں ہائی کورٹ کے حکم تک کسی تیسرے فریق کے حقوق قائم نہیں کیے جائیں گے۔
3. غیر مسلم ممبران کی شمولیت — عدالت نے اس شق کو برقرار رکھا لیکن وضاحت کی کہ:
مرکزی وقف کونسل میں 20 اراکین میں سے 4 سے زیادہ غیر مسلم شامل نہ ہوں۔
ریاستی وقف بورڈ میں 11 میں سے 3 سے زیادہ غیر مسلم نہ ہوں۔
عدالت نے یہ بھی کہا کہ ممکنہ حد تک وقف بورڈ کا چیف ایگزیکٹو آفیسر (جو ایکس آفیشیو سیکریٹری ہوتا ہے) مسلمان ہونا چاہیے۔
4. رجسٹریشن کی شرط — عدالت نے رجسٹریشن لازمی رکھنے والی شق پر مداخلت نہیں کی جا سکتی۔ یہ کوئی نیا تقاضا نہیں ہے، بلکہ 1995 اور 2013 کے ایکٹ میں بھی موجود تھا۔ البتہ رجسٹریشن کی آخری تاریخ میں توسیع دے دی گئی ہے، جس کی تفصیل فیصلے کے مکمل متن میں آئے گی۔
عدالت نے وضاحت کی کہ یہ تمام ہدایات ابتدائی رائے (prima facie) کی بنیاد پر ہیں۔ حتمی سماعت میں فریقین کو قانون کی دفعات کی آئینی حیثیت پر مکمل دلائل دینے کا موقع ملے گا۔
یاد رہے کہ عدالت نے یہ حکم 22 مئی کو تین روزہ سماعت کے بعد محفوظ کیا تھا۔ یہ عرضیاں پارلیمنٹ کی جانب سے 2025 میں منظور کی گئی ترامیم کو چیلنج کرتے ہوئے دائر کی گئی تھیں۔ اپریل میں سابق چیف جسٹس سنجیو کھنہ کی سربراہی والی بینچ نے کچھ دفعات پر ابتدائی اعتراضات ظاہر کیے تھے، جس پر مرکزی حکومت نے یقین دہانی کرائی تھی کہ حتمی فیصلہ آنے تک غیر مسلموں کو وقف بورڈ اور کونسل میں شامل نہیں کیا جائے گا اور کسی بھی وقف کو ڈی نوٹیفائی نہیں کیا جائے گا۔
