مدارس کے خلاف یلغار: تحفظ کی راہیں اور ہماری ذمہ داری
ڈاکٹر ابوالکلام قاسمی شمسی
ہندوستان ایک کثیر المذاہب ملک ہے جہاں ہندو، مسلمان، سکھ، عیسائی اور دیگر مذاہب کے لوگ رہتے ہیں۔ آئینِ ہند ایک سیکولر آئین ہے جو تمام شہریوں کو مذہبی اور تعلیمی آزادی دیتا ہے۔ آئین کی دفعات 25، 26، 29 اور 30 کے تحت ہر مذہب کو اپنی عبادت گاہ اور تعلیمی ادارہ قائم کرنے کا حق حاصل ہے۔ اس کے باوجود کئی ریاستوں میں مسلم اداروں کے ساتھ امتیاز برتا جا رہا ہے جو افسوسناک ہے۔

اس سرزمین پر سناتن دھرم، بدھ مت، جین مت اور سکھ مت نے جنم لیا۔ ہر مذہب کے ماننے والے بچپن سے ہی اپنے بچوں کو مذہبی تعلیم دیتے ہیں۔ ہندو پاٹھ شالہ، بدھ و جین گروکل اور مسلمان مدرسہ قائم کرتے ہیں۔ "مدرسہ” کا مطلب ہے تعلیم و تدریس کی جگہ، اور اسی سے جمع "مدارس” ہے۔ یہ ادارے ہمیشہ مسلم تہذیب و ثقافت کا حصہ رہے ہیں۔
ہر مذہب کی اساس مذہبی تعلیم ہے۔ یہ مذہبی تعلیم ہر شخص کے لئے ضروری ہے ،تاکہ وہ دھرم اور مذہب کے مطابق زندگی گذارے، ہرزمانہ میں یہ بات قابل قبول رہی ہے کہ دھرم اور مذہب میں ہی سکون وشانتی ہے۔ ہر مذہب اور دھرم میں اقدار کے تحفظ کی تعلیم دی جاتی ہے، بندہ کا اس کے پیدا کرنے والے سے کیا تعلق ہے، اس کا ماں باپ ،بھائی بہن اور سماج کے دیگر لوگوں سے کیا رشتہ ہے اورکس کے کیا حقوق ہیں، انسانیت کیا ہے اور اس کی حفاظت کیسے کی جائے؟ گناہ کیا ہے اور اس کی سزا کیا ہے؟ چوری، ڈکیتی، لوٹ مار، ظلم وستم اور ناحق کسی کے حقوق کو برباد کرنے سے مذہب اور دھرم روکتا ہے۔مذہب انسانیت ،اخلاق اور آپسی میل ومحبت کی تعلیم دیتا ہے۔ ہمیں فخر ہے کہ ہمارا ملک ہندوستان مذہبی اور دھارمک اقدار کا محافظ ہے۔
البتہ آج ملک میں نفرت کا ماحول قائم کر دیا گیا ہے۔ اکثریت سے تعلق رکھنے والے کچھ عناصر اقلیتوں اور ان کی عبادت گاہوں سے نفرت پھیلا رہے ہیں۔ خاص طور پر مسلم مذہبی مراکز — مساجد، مدارس، خانقاہیں اور عیدگاہیں — نشانے پر ہیں۔ افسوس کہ بعض ریاستی حکومتیں بھی اس عمل میں شریک ہیں اور مرکزی سطح پر بھی ایسے قوانین لائے جا رہے ہیں جن کا رخ براہِ راست مسلم اداروں کی طرف ہے۔ نتیجتاً مدارس اسلامیہ متعدد ریاستوں میں بندش اور کارروائیوں کا سامنا کر رہے ہیں۔ یہ سلسلہ آسام سے شروع ہوا اور اب یوپی اور اتراکھنڈ تک پہنچ چکا ہے، جو نہایت تشویش ناک ہے۔
آزاد اور ملحقہ مدارس: دو نظام، ایک مقصد
ہندوستان میں دو طرح کے مدارس چلتے ہیں، ایک وہ ہیں جو آزاد ہیں، ان کا اپنا نصاب اور اپنا نظام ہے، وہ اسی کے مطابق درس وتدریس کی خدمات انجام دیتے ہیں، وہ عوامی چندے سے چلتے ہیں، حکومت سے کوئی مالی تعاون نہیں لیتے ہیں۔
دوسرے مدارس وہ ہیں جو کسی مدرسہ بورڈ سے ملحق ہیں، ایسے مدارس میں بورڈ کا مخلوط نصاب تعلیم جاری ہے، یہ ادارے حکومت کے تعاون سے چلتے ہیں۔
مذکورہ مدارس میں سے کوئی بھی ہوں، وہ دینی افکار ونظریات کے حاملین کو پیدا کرتے ہیں، ان میں دینیات اور اسلامیات اور لسانیات کی تعلیم دی جاتی ہے۔ اس طرح یہ مسلم اقلیتوں کے دینی اور لسانی خدمات انجام دیتے ہیں۔
آزاد مدارس سے جید علماء پیدا ہوتے ہیں جو مسلم سماج کی دینی ضرورتوں کی تکمیل کرتے ہیں۔ وہ مفتی، قاضی، امام، موذن کے کام کو سنبھالتے ہیں، مسلم سماج کے درمیان دینی افکارکو پھیلانے میں اہم رول ادا کرتے ہیں، جبکہ مدارس ملحقہ کے فارغین بھی دینی ضرورتوں کی تکمیل میں حصہ لیتے ہیں۔ نیز ملک کے عصری اداروں اسکول، کالج، یونیورسٹی وغیرہ میں اردو ،فارسی اور عربی کی خدمات انجام دیتے ہیں۔ غرض دونوں طرح کے مدارس اپنے اپنے طور پر کام کررہے ہیں۔
مندرجہ بالا حقائق سے ظاہر ہے کہ مدارس کس قدر اہم ہیں۔ ہندوستان میں مسلمان تقریباً 20 فیصد ہیں اور ایک اقلیت کی حیثیت سے اپنے دین و شریعت کی واقفیت اور اس کے تحفظ کے سخت محتاج ہیں۔ موجودہ ماحول میں کفروشرک اور غلط رسم و رواج عام ہیں، اس لیے اگر بچوں کو دینی تعلیم نہ دی جائے تو ان کے دین سے دور ہونے کا خطرہ ہے۔ یہی ضرورت مدارس پوری کرتے ہیں۔ خدانخواستہ اگر مدارس کا نظام کمزور پڑ گیا تو امت کو بڑے نقصانات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
مدارس کا تحفظ کیوں؟
1. مدارس مسلم سماج کو دین و شریعت سے واقف کرتے ہیں اور یہ ان کی بنیادی ضرورت ہے۔
2. یہی ادارے ایسے جید مفتیان پیدا کرتے ہیں جو بدلتے حالات اور نئے مسائل میں رہنمائی فراہم کرتے ہیں۔
3. ملک بھر میں دارالقضاء کا نظام مسلمانوں کے شرعی نزاعات کو صلح و مصالحت سے حل کرتا ہے۔
4. ہر گاؤں، قصبے اور شہر کی مساجد میں امام، خطیب اور مؤذن کی ضرورت پڑتی ہے۔
5. مسلمانوں کے صرف ایک محدود طبقے کے بچے مدارس میں پڑھتے ہیں، باقی بڑی تعداد اسکول و کالج میں ہے۔ ان کے لیے صبح و شام مکاتب قائم ہیں۔ ان تمام امور کے لیے افراد مدارس میں تیار ہوتے ہیں۔
6. اسکول، کالج اور یونیورسٹی میں اردو، فارسی اور عربی کی تدریس کے لیے جو اساتذہ اور پروفیسر درکار ہیں، ان کی بڑی تعداد اہل مدارس سے ہی آتی ہے۔
7. مدارس غریب اور پسماندہ طبقات کے بچوں کو تعلیم، رہائش اور مکمل کفالت مہیا کرتے ہیں۔ اس سے شرح خواندگی بڑھی ہے اور تعلیم کا دروازہ سماج کے نادار طبقوں تک پہنچا ہے۔
8. اہل مدارس خدمتِ خلق میں ہمیشہ پیش پیش رہتے ہیں۔ سیلاب، زلزلہ یا دیگر آفات و حادثات میں یہ سماج کے "جانباز سپاہی” بن کر سامنے آتے ہیں۔
9. آزادیٔ ہند کی تحریک، قومی یکجہتی اور جمہوری نظام کے قیام میں مدارس کا تاریخی کردار ہے۔ آج بھی یہ ادارے ملک کے آئین کی حفاظت، امن و امان کے قیام اور سماجی ہم آہنگی کے ضامن ہیں۔
مدارس کا تحفظ کیسے؟
1. مدارس کو اپنی زندگی کا لازمی حصہ سمجھنا چاہیے۔ جس طرح ہم اپنی جان کی حفاظت کرتے ہیں، اسی طرح ان اداروں کی حفاظت بھی ضروری ہے۔
2. ماضی میں مسلم بادشاہوں اور نوابوں کے دور میں جاگیر اور اوقاف کا مضبوط نظام قائم تھا۔ لوگ اپنی جائیدادیں وقف کرتے اور جاگیریں عطا کی جاتی تھیں، جن سے مدارس کے اساتذہ، طلبہ اور ملازمین کی کفالت ہوتی تھی۔ مگر حکمرانی ختم ہونے کے بعد یہ سلسلہ کمزور پڑ گیا، اوقاف کے تحفظ میں بھی وہ جذبہ باقی نہ رہا، نتیجتاً مدارس کا نظام بتدریج کمزور ہوتا گیا۔ کورونا کے بعد تو حالت مزید خراب ہوئی، بہت سے مدارس بند ہو گئے اور باقی بھی شدید بحران سے دوچار ہیں۔
3. موجودہ وقت میں کئی ریاستی حکومتیں مدارس پر کارروائی کر رہی ہیں۔ اگرچہ مدارس رائٹ ٹو ایجوکیشن اور نئی تعلیمی پالیسی سے مستثنیٰ ہیں، لیکن حقوقِ اطفال کمیشن کے ذریعے مداخلت کی راہیں نکالی جا رہی ہیں۔ چونکہ اس کا دائرہ اسکول تک ہے، اس لیے اسکول سطح تک انتظامات درست کرنا ضروری ہے۔
ضروری اقدامات
مدارس کا باقاعدہ رجسٹریشن کرایا جائے، خواہ مدرسہ بورڈ، سوسائٹی رجسٹریشن یا ٹرسٹ کے ذریعہ۔
نصاب میں کم از کم میٹرک تک دینیات کے ساتھ عصری علوم بھی شامل ہوں اور طلبہ کو اوپن اسکول کے ذریعے امتحان دینے کی سہولت ہو۔
کلاس روم میں طلبہ کی تعداد 40 سے زیادہ نہ ہو اور ہاسٹل کا انتظام الگ ہو۔
ہاسٹل کے کمروں میں ضرورت سے زیادہ طلبہ نہ رکھے جائیں۔
واش روم، باورچی خانہ، وضوخانہ اور احاطہ صاف ستھرا رکھا جائے۔
مدرسہ کا حساب و کتاب درست ہو اور سالانہ آڈٹ لازمی کرایا جائے۔
مدارس ملحقہ کا الحاق پہلے ہی حکومت تسلیم کر چکی ہے، البتہ ضرورت ہو تو سوسائٹی یا ٹرسٹ کے تحت الگ رجسٹریشن کرایا جا سکتا ہے۔
4. قانونی پہلو بھی اہم ہیں۔ بہار مدرسہ بورڈ ایکٹ 1981 مدارس کو اقلیتی ادارہ قرار دیتا ہے۔ الٰہ آباد ہائی کورٹ کے ایک فیصلے کو سپریم کورٹ نے رد کرکے واضح کیا کہ مدارس آئین کی دفعات کے مطابق کام کر رہے ہیں اور انہیں اقلیتی تعلیمی اداروں کے طور پر تحفظ حاصل ہے۔
5. اس وقت آزاد مدارس زیادہ نشانے پر ہیں۔ ان کے ذمہ داروں کو چاہیے کہ یہ اصول اپنا کر اداروں کو محفوظ بنائیں۔
6. اگر ان اقدامات کے باوجود حکومتی مداخلت جاری رہے تو قانونی چارہ جوئی کی جائے۔ خاموشی اور محض مصلحت نقصان دہ ہے۔ اپنی صفوں کو مضبوط کریں اور مقابلے کے لیے تیار رہیں۔
یہ وقت ہے کہ مسلم سماج اپنے مدارس کو آئینی، سماجی اور تعلیمی سطح پر مضبوط بنائے اور ہر سطح پر ان کے تحفظ کے لیے متحد ہو۔
