وقف ایکٹ 2025: عدالت کا عبوری حکم اور بڑھتے خدشات
غالب شمس
وقف ترمیمی ایکٹ 2025 پر سپریم کورٹ کا عبوری فیصلہ آیا تو اس نے بیک وقت امید، مایوسی اور خدشات تینوں کو جنم دیا۔ عدالت نے اگرچہ پانچ سال تک اسلام پر عمل کرنے کی شرط اور ضلع کلکٹر کو وقف جائیدادوں کے تنازعات طے کرنے کا اختیار کالعدم قرار دے کر آئینی اصولوں کا دفاع کیا، لیکن "وقف بائی یوزر” کے تصور کو ختم کرنے کے فیصلے کو درست ٹھہرایا۔ یہی وہ نکتہ ہے جس نے سب سے زیادہ ہلچل پیدا کی۔

سب سے سخت لہجہ جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا محمود اسعد مدنی کا تھا۔ ان کے مطابق "وقف بائی یوزر” کو تسلیم نہ کرنا ہزاروں مساجد، قبرستانوں اور مدارس کے مستقبل پر کاری ضرب ہے۔ انہوں نے کہا کہ بیشتر مساجد اور قبرستان اسی اصول کے تحت قانونی تحفظ حاصل کرتے آئے ہیں۔ اگر یہ شق ختم کر دی گئی تو ان اداروں کو متنازع جائیداد قرار دیے جانے کا خطرہ بڑھ جائے گا۔ ان کے بقول یہ نہ صرف شرعی اصولوں کے خلاف ہے بلکہ کروڑوں مسلمانوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی بھی ہے۔
مولانا مدنی نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ عدالت نے اپنے عبوری فیصلے کے پیرا (143، 152) میں جن grounds پر وقف بائی یوزر کے تحفظ کو ختم کیا ہے، وہ ناقابلِ قبول ہیں۔ اس پر ہم اپنی قانونی لڑائی جاری رکھیں گے۔ انہوں نے کہا کہ عدالت نے یہ کہہ کر کہ 1923 کے ایکٹ سے ہی رجسٹریشن لازمی تھی، اپنی دلیل کو درست ثابت کرنے کی کوشش کی ہے، مگر یہ حقیقت ہے کہ وقف بائی یوزر کی شق کو ہمیشہ تسلیم کیا گیا اور اسی بنیاد پر ہزاروں مساجد اور قبرستان قائم ہیں۔
اس کے برعکس دوسری جمعیۃ کے صدر مولانا ارشد مدنی نے فیصلے کا خیر مقدم کیا اور کہا کہ عدالت کی طرف سے دی گئی عبوری راحت سے امید پیدا ہوئی ہے کہ انصاف ابھی زندہ ہے۔ انہوں نے اعلان کیا کہ جمعیۃ اپنی قانونی اور جمہوری جدوجہد اس وقت تک جاری رکھے گی جب تک یہ "کالا قانون” ختم نہیں ہو جاتا۔
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے رکن سید قاسم رسول الیاس نے زیادہ محتاط مگر مایوس کن ردعمل ظاہر کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ عدالت نے چند شقوں پر ریلیف ضرور دیا ہے، لیکن بڑے آئینی خدشات کو نظرانداز کر دیا گیا ہے۔ ان کے مطابق حکومت کے متعصبانہ رویے کو دیکھتے ہوئے اندیشہ ہے کہ باقی دفعات کا غلط استعمال ہوگا۔
سیاسی ردعمل میں جموں و کشمیر کے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے کہا کہ یہ بل ابتدا ہی سے ایک مذہب کو نشانہ بنانے کے لیے لایا گیا تھا، اور عدالت نے اس حقیقت کو تسلیم کر کے صحیح سمت دکھائی ہے۔ انہوں نے توقع ظاہر کی کہ باقی قابلِ اعتراض شقوں پر بھی مزید غور ہوگا۔
ادھر حکومت کی طرف سے مرکزی وزیر کرن رجیجو نے عدالت کے فیصلے کو جمہوریت کے لیے مثبت قرار دیا۔ ان کے مطابق پارلیمنٹ سے پاس ہونے والے قانون کو عدالت رد نہیں کر سکتی، اور سپریم کورٹ نے اسی اصول کو تسلیم کیا ہے۔ رجیجو نے یہ بھی کہا کہ حکومت نے اپنے موقف اور مقصد کو تفصیل سے عدالت میں رکھا تھا، جسے بینچ نے وزن دیا۔
سماجی کارکن سلیم ملا کا ردعمل ان سب سے الگ تھا۔ ان کے مطابق فیصلے سے کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئی، صرف وقتی نرمی دکھائی گئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اصل مسائل جوں کے توں ہیں، لیکن ایک مثبت پہلو یہ ضرور ہے کہ عام مسلمان اب وقف کے تصور اور اس کے اداروں کے بارے میں بیدار ہوا ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ اصل کام وقف بورڈ کو کرنا ہوگا: اپنی جائیدادوں کا تحفظ، شفافیت اور ترقیاتی منصوبے۔ ان کے مطابق "صرف قانونی فیصلوں سے وقف کے مسائل حل نہیں ہوں گے۔”
یہ فیصلہ ہر فریق کے لیے تشویش اور امید دونوں کا باعث بنا۔ عدالت نے وقتی طور پر آئینی اصولوں کا دفاع تو کیا ہے، لیکن "وقف بائی یوزر” کے خاتمے سے پیدا ہونے والا خلا آنے والے وقت میں سب سے بڑی بحث بن سکتا ہے۔ حتمی سماعت ہی طے کرے گی کہ وقف کے ادارے کس حد تک محفوظ رہیں گے اور آئین کی مذہبی آزادی کی ضمانت کس شکل میں باقی رہے گی۔
