بہار کے مدارس: ریاستی غفلت، اور ادارہ جاتی زوال
غالب شمس
اتر پردیش، اتراکھنڈ اور آسام میں مدارس پر کارروائیوں اور قانونی دباؤ نے ملک گیر بحث چھیڑ دی تھی۔ لیکن بہار کا منظر ان سب سے مختلف ہے۔ یہاں نہ کوئی بلڈوزر چلا، نہ تالے لگے، نہ کوئی قانون لایا گیا جس نے مدارس کو نشانہ بنایا ہو۔ مدارس کھلے ہیں، تعلیم جاری ہے، مگر ان کے اندر ایک ایسا خاموش زوال پیدا ہو چکا ہے جو شور کے بغیر نظام کو اندر سے کھوکھلا کر رہا ہے۔ یہ زوال نہ احتجاجی ہے نہ سیاسی، بلکہ تدریجی اور غیر محسوس ہے۔ ریاستی غفلت، مالی بحران اور انتظامی مداخلت کے امتزاج سے جنم لینے والا زوال ہے۔

بہار اسٹیٹ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کے تحت تقریباً چار ہزار مدارس کام کر رہے ہیں۔ بظاہر یہ نظام منظم دکھائی دیتا ہے: آٹھ لاکھ طلبہ، پندرہ ہزار اساتذہ، اور ایک صدی پرانی روایت۔ لیکن اس منظر کی سطح کے نیچے فنڈنگ رک چکی ہے، اساتذہ کی تنخواہیں غیر یقینی ہیں اور غیر امدادی ادارے بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ بورڈ کی بنیاد 1922 میں رکھی گئی تھی اور 1981 کے ایکٹ کے تحت اسے قانونی حیثیت ملی۔ سو سال مکمل ہونے پر حکومت نے ایک بڑی تقریب میں مدرسہ نظام کی کامیابیوں کا ذکر کیا، مگر اس جشن کے بعد حقیقت وہی رہی جو پہلے تھی: بورڈ آج بھی پٹنہ کے ودیاپتی مارگ پر کرایہ کے مکان میں کام کر رہا ہے، جبکہ نو کروڑ روپے کی لاگت سے اس کے مستقل ہیڈکوارٹر کی تعمیر برسوں سے تعطل میں ہے۔ یہ علامت ہے ایک ایسے نظام کی جو صدی پرانا تو ضرور ہے، مگر اپنے قدموں پر کھڑا نہیں ہو پایا۔
اعداد کے لحاظ سے بہار ملک کی ان چند ریاستوں میں ہے جہاں اردو میڈیم اسکولوں اور مدارس کا جال سب سے وسیع ہے۔ ملی گزٹ کی 2015 کی رپورٹ کے مطابق ملک میں 28,276 اردو میڈیم اسکول ہیں، جن میں سے 3624 بہار میں واقع ہیں۔ ان میں 2597 سرکاری اسکول ہیں۔ مدرسہ بورڈ سے وابستہ مدارس کی تعداد 3588 ہے جن میں سے 1942 کو سرکاری امداد ملتی ہے۔ وفاق المدارس الاسلامیہ بہار کے ناظم مفتی ثناء الہدیٰ قاسمی نے اس اعداد میں تازہ اضافہ بتاتے ہوئے کہا،کہ اب یہ تعداد 2 ہزار کے قریب ہے۔
لیکن بحران وہیں ہے جہاں امداد ختم ہو جاتی ہے۔ مفتی ثناء الہدیٰ قاسمی کے مطابق: ” وہ مدارس، جنہیں سرکار نے تسلیم تو کیا ہے لیکن گرانٹ نہیں دیتی۔ وہ 1646 مدارس ہیں۔ ان کے لیے جب سلیم پرویز نے ’صد سالہ اجلاس‘ کے نام سے ایک اجلاس بلایا تھا، تو کہا تھا کہ ان سب کو منظور کیا جائے گا اور اس کا اعلان ہوگا، لیکن نتیش کمار نے اس کا کوئی اعلان نہیں کیا، اور سلیم پرویز بھی کچھ نہ کر سکے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اس اجلاس میں کافی ہنگامہ ہوا۔ اتنا کہ پہلے محکمہ کے افسران چلے گئے، پھر سلیم پرویز وغیرہ بھی اسٹیج چھوڑ کر بھاگ گئے۔ ان سولہ سو میں سے 6 سو مدارس کے کاغذات ، معلوم ہوا کہ سکریٹیریٹ میں بھیجے گئے ہیں، مگر ابھی تک کچھ عمل نہیں ہوا۔ کہا گیا ہے کہ ضابطۂ اخلاق نافذ ہے، مگر وہ ابھی تک کچھ نتیجہ نہیں دے رہا۔ اور بظاہر ہونے کی امید بھی نہیں، کیونکہ چاہے این ڈی اے ہو یا عظیم اتحاد دونوں میں سے کسی نے بھی اپنے منشور (منفیسٹو) میں یہ وعدہ نہیں کیا کہ وہ مدارس کے لیے کچھ کریں گے۔”
یہ وہ ریاستی خاموشی ہے جو بہار میں مدارس کے مستقبل کو غیر یقینی بنائے ہوئے ہے۔ حکومت کی پالیسیوں میں مذہبی تعلیم کو جگہ تو دی گئی ہے مگر عزت نہیں، امداد کا وعدہ کیا گیا ہے مگر عمل نہیں ہوا۔ حالیہ برسوں میں تین نئے نوٹیفکیشن جاری ہوئے ہیں جنہوں نے مدارس کی خودمختاری پر ضرب لگائی۔ مفتی قاسمی کے مطابق: "بہار کے مدارس کی سب سے بڑی مشکل یہ ہوئی کہ حال میں حکومت نے تین نوٹیفکیشن جاری کیے ہیں، جن میں مدارس کی مجلسِ منتظمہ، بحالی اور تدریسی نظام کے سلسلے میں ایسی تبدیلیاں کی گئی ہیں جن سے ان کا اقلیتی کردار نہ صرف مجروح ہوا بلکہ تقریباً ختم ہو گیا۔”
ان نوٹیفکیشن کے ذریعے حکومت نے مدارس کی انتظامی آزادی سلب کر لی ہے۔ اب بحالی، تبادلے اور منظوری کے تمام اختیارات محکمہ جاتی دفتروں کے ہاتھ میں آ گئے ہیں۔ بظاہر کوئی ’’کالا قانون‘‘ نہیں، مگر اندر ہی اندر ایک ایسا انتظامی جال بُنا گیا ہے جو مدرسہ نظام کی روح کو جکڑتا جا رہا ہے۔
تعلیم کا بحران سب سے زیادہ اساتذہ کی کمی اور تعلیمی درجہ بندی میں بگاڑ سے ظاہر ہوتا ہے۔ مفتی ثناء الہدیٰ قاسمی وضاحت کرتے ہیں: "مولوی درجے تک کے مدارس کو جو اساتذہ دیے جائیں گے، وہ تین تدریسی عملہ ہوں گے ۔ ایک حافظ اور بارہ تدریسی درجات کے لیے، اور تین نان ٹیچنگ اسٹاف ہوں گے، جن میں ایک کلرک اور دو چپراسی ہوتے ہیں۔ اب اگر ایک شخص کسی مضمون میں عالم یا فاضل کا امتحان دے کر نرسری میں پڑھانا چاہے تو سترہ درجات چھوڑ کر نیچے آنا پڑتا ہے۔ اور جو اساتذہ مدارسِ ملحقہ میں اس وقت تدریسی خدمات انجام دے رہے ہیں، ان میں کئی صرف حافظ ہیں۔ ظاہر ہے، جب کلاس ٹیچر کے معیار کے اساتذہ نہیں ہوں گے تو تعلیمی معیار کیسے بلند ہوگا؟ یہ ایک اور تماشا یہ شروع ہوا کہ مدارس کے تعلیمی نظام کو بگاڑنے کے لیے یہاں تعلیم بندی کی صورت دکھائی دینے لگی ہے۔ اب یہ طے کیا گیا ہے کہ ‘مولوی آرٹس’ بھی ہوگا، ‘مولوی کامرس’ بھی ہوگا، اور ‘مولوی سائنس’ بھی ہوگا۔ اب آپ سوچیے کہ درجات کتنے بڑھ گئے۔ جب تینوں شعبے کھلیں گے تو اساتذہ بھی بڑھنے چاہییں، لیکن اس پر کبھی کسی نے توجہ نہیں دی۔” بہار صورتِ حال تعلیمی زوال سے بڑھ کر انتظامی بے حسی کی علامت ہے۔
ستمبر میں، بہار کے کئی اضلاع ( کشن گنج، مدھوبنی، سیتا مڑھی ) میں مدرسہ ڈیولپمنٹ آرگنائزیشن (ایم ڈی او) کے بینر تلے اساتذہ اور غیر تدریسی عملے نے اپنے مطالبات کے حق میں مظاہرے کیے۔ یہ احتجاج برسوں کی بے توجہی کا ردعمل تھا۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ حکومت ان کے مسائل کو مسلسل نظرانداز کر رہی ہے، جس سے ہزاروں خاندان معاشی تنگی کا شکار ہیں۔ ان کا مطالبہ تھا کہ مدرسہ رول 2022 میں ترمیم کر کے ریاست کے تمام امدادی مدارس کو اقلیتی اداروں کا درجہ دیا جائے تاکہ خودمختاری اور شفافیت بحال ہو سکے۔ اس کے ساتھ انہوں نے تنخواہوں میں نظرثانی، سالانہ اضافہ، طبی اور رہائشی الاؤنس، پنشن کی سہولت، اور زائد المیعاد واجبات کی ادائیگی کا مطالبہ کیا۔ ان کے مطابق 1637 مدارس کی آڈٹ رپورٹ بورڈ میں جمع ہے، مگر واجبات کی ادائیگی ابھی تک نہیں ہوئی۔ نئے تقرر پانے والے جے آئی ٹی اساتذہ اور 1128 مدارس میں کام کرنے والے حفاظ و سائنس ٹیچرز کی تنخواہیں چپراسی سے بھی کم ہیں اور یہ خود ایک تلخ حقیقت ہے۔
ایم ڈی او سیتا مڑھی کے ترجمان محمد مناظر الاسلام نے روایت سے گفتگو میں بتایا: "ہم نے حکومت سے جو مطالبات کیے تھے، ان میں بیشتر پر ابھی کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ بات چیت ضرور ہوئی مگر عمل کہیں نہیں۔ سیاسی جماعتوں کے منشور میں مدارس کا ذکر تک نہیں، ان کا کہنا تھا کہ بہار میں مدارس پر قانون کے ذریعے نہیں بلکہ خاموش پالیسیوں کے ذریعے دباؤ بڑھایا جا رہا ہے۔ ان کے مطابق:
"یہ خطرہ صرف سرکاری نہیں، بلکہ نجی مدارس کے لیے بھی ہے۔ بہت سے پرائیویٹ مدارس کا رجسٹریشن مکمل نہیں، جس کا فائدہ حکومت کو ہو سکتا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ مدرسہ رول میں ترمیم کر کے امدادی مدارس کو اقلیتی درجہ دیا جائے۔ اس سلسلے میں عدالت میں کیس زیرِ سماعت ہے، مگر ضابطۂ اخلاق نافذ ہونے کے بعد کارروائی رک گئی ہے۔”
بہار مدرسہ بورڈ کے ایک مدرس اور ان کے پرنسپل نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ نظام کی خرابی کی بڑی وجہ سرکار کا غیر سنجیدہ دخل ہے۔ ان کے مطابق چیئرمین اکثر سیاسی بنیاد پر مقرر کیے جاتے ہیں، جو تعلیمی درد رکھنے کے بجائے اقتدار کے قریب رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ “ابھی فی الحال چیئرمین آیا ہے مگر وہ الیکشن میں مصروف ہے، نیتیش کمار کو ہی خدا مانتا ہے۔ اس سے پہلے ساڑھے تین سال تک بورڈ چیئرمین تھا ہی نہیں، اس دوران تمام فائلیں پینڈنگ رہیں۔” پرنسپل کے مطابق تقریباً پچاس مدرسے ایسے ہیں جہاں اساتذہ نہیں ہیں اور ان پر تالے لگے ہیں، جبکہ دیگر میں دو یا تین استاد ہیں جہاں چھ سے آٹھ کی ضرورت ہے۔ ان کے بقول “سرکار اسکولوں کو تمام سہولیات دیتی ہے مگر مدارس کو کچھ نہیں۔ نتیجہ یہ کہ والدین اپنے بچوں کو اسکولوں کی طرف بھیجنے لگے ہیں۔”
اسی مدرس کے مطابق تعلیمی زوال کے ساتھ بدعنوانی بھی ایک مستقل مرض بن چکی ہے۔ “سال میں دو چار مرتبہ مدرسہ بورڈ یا سرکار کی طرف سے انکوائری بٹھا دی جاتی ہے۔ افسران آتے ہیں تو رپورٹ درست ہونے کے باوجود ڈیڑھ دو لاکھ روپے دینا پڑتے ہیں۔ مالی بدعنوانی اور رشوت خوری عام ہے، اس وجہ سے اساتذہ کا ذہنی دباؤ بڑھتا ہے اور توجہ تعلیم سے ہٹ جاتی ہے۔” ان کے مطابق اگر چیئرمین اور بورڈ ممبران تعلیم کے معاملے میں ایماندار اور باصلاحیت ہوں تو نظام ٹھیک ہو سکتا ہے، لیکن موجودہ ڈھانچے میں اصلاح کی امید کم ہے۔
یہ صورتحال بتاتی ہے کہ بہار میں مدارس کا بحران سرکاری مخالفت سے نہیں، بلکہ مسلسل عدم توجہی، سیاسی مداخلت اور ادارہ جاتی زوال سے پیدا ہوا ہے۔ مدارس کی عمارتیں کھڑی ہیں مگر اندر سے نظام بیٹھ چکا ہے۔ تدریسی ڈھانچے میں خلا، امتحانی و نصابی سطح پر بے ربطی، اور گرانٹ کی عدم مساوات نے اس نظام کو نیم مردہ بنا دیا ہے۔ مفتی ثناء الہدیٰ قاسمی کا اندیشہ بجا ہے کہ اگر یہی صورتِ حال جاری رہی تو دیر یا سویر بہار میں بھی وہی انجام دہرایا جا سکتا ہے جو آسام اور اتراکھنڈ میں ہوا، ظاہری امن کے پس منظر میں ایک تدریجی انہدام ۔
